عراق میں تشدد اور کشیدگی کے باوجود مظاہرے جاری

لوگ بغداد کے تحریر اسکوائر میں دھرنا جاری رکھے ہوئے ہیں۔

اس ماہ کے شروع میں امریکہ اور ایران کی طرف سے عراق میں حملے اور جوابی حملے کے بعد رونما ہونے والی کشیدگی اور حالیہ تشدد کے باوجود بغداد میں مظاہرے جاری ہیں۔

توقع ہے عراق میں بڑے پیمانے کے احتجاجی مظاہرے کل جمعہ کے روز دوبارہ شروع ہو جائیں گے، اور امدادی کارکنوں کا کہنا ہے کہ وہ کسی ممکنہ بدترین صورت حال کا مقابلہ کرنے کیلئے پوری طرح تیار ہیں۔ عراقی ہلال احمر کے احمد محمود کہتے ہیں کہ ’’یہاں بہت سی ہلاکتیں ہوئی ہیں‘‘۔

تاہم، عراق میں چونکہ امریکہ اور ایران کا بحران بدستور موجود ہے، یہ بات واضح نہیں ہے کہ کل شروع ہونے والے احتجاجی مظاہرے کیا شکل اختیار کریں گے۔ وائس آف امریکہ کی نمائندہ ہیدر مرڈوک کا کہنا ہے کہ محمد القاسم ہائی وے وہ مقام ہے جہاں مظاہروں کے دوران بہت زیادہ تشدد ہوا اور یہ صورت حال اکتوبر سے جاری ہے۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ ان ریلیوں میں 600 لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔

شیعہ رہنماؤں نے عراق میں امریکی فوج کی موجودگی کے خلاف مظاہروں کی کال دی ہے۔ عراق میں امریکی فوجی مداخلت ایک ایسا مسئلہ ہے جس کے نتیجے میں فرقہ ورانہ تشدد بڑھا ہے۔ عراق کی سنی اور کرد برادریاں چاہتی ہیں کہ امریکی فوج عراق میں موجود رہے۔

بغداد کے تحریر اسکوائر اور اس سے ملحقہ جگہوں پر مظاہرین کا کئی ماہ سے قبضہ ہے جنہوں نے وہاں خیمے نصب کر رکھے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اس وقت تک یہ جگہ خالی نہیں کریں گے، جب تک ان کے مطالبات پورے نہیں ہو جاتے۔

ان کا مطالبہ ہے کہ روزگار، سیکورٹی اور صحت عامہ کی دیکھ بھال جیسے بنیادی حقوق فراہم کیے جائیں اور وسیع پیمانے پر موجود کرپشن اور غربت کا خاتمہ کیا جائے۔

بہت سے مظاہرین عراق میں شہری حقوق اور اتحاد کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ کچھ مظاہرین کا کہنا ہے کہ وہ اپنے مطالبات میں اضافہ کرتے ہوئے عراق سے امریکی فوجیوں کے انخلا کو بھی شامل کریں گے۔