ترکی میں کردستان ورکرز پارٹی "پی کے کے" کے باغیوں کے حملوں میں حالیہ دنوں میں تیس ترک سکیورٹی اہلکار مارے جا چکے ہیں جب کہ کرد نواز پارٹی "ایچ ڈی پی" کے دفاتر کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔
اسی تناظر میں قوم پرستوں کی ایک بڑی تعداد نے مظاہرے شروع کر دیے ہیں اور سیاسی جماعتوں نے تحمل سے کام لینے کا مطالبہ تو کیا ہے لیکن ساتھ ہی یہ خدشات بھی سر اٹھانے لگے ہیں کہ ترکی نسلی تنازع کی طرف بڑھ رہا ہے۔
ترک پرچم اٹھائے ہوئے ایک مشتعل ہجوم نے کرد نواز پارٹی کے انقرہ میں صدر دفتر پر دھاوا بولا۔ مظاہرے میں شامل لوگ "انتقام کا مطالبہ" کر رہے تھے۔
ایسے ہی حملے ملک کے مختلف شہروں میں بھی دیکھنے میں آئے۔
استنبول میں سلیمان ساہ یونیورسٹی سے وابستہ سوشل سائنس کے ماہر چنگیز اختر کہتے ہیں کہ ترکی اقلیتوں کے خلاف کارروائیوں کی ایک تاریخ کا حامل ہے۔
"گزشتہ ایک سو سال سے آپ کو یہ دیکھنے کو ملے گا۔ اب گزشتہ روز ایچ ڈی پی کے دفاتر پر حملے کرنے والے ہجوم کا معاملہ اچانک سے ہونے والی کوئی کارروائی نہیں، یہ ایک ایک کر کے منتخب کردہ علاقوں میں ہوئے۔"
ایچ ڈی پی کے رہنما صلاحتین دمتریتاس نے صدر رجب طیب اردوان کی جماعت "اے کے" پارٹی اور ترک انٹیلی جنس پر الزام عائد کیا ہے کہ تشدد کے ان تازہ واقعات میں ان کا ہاتھ ہے۔
انتہائی دائیں بازو کی جماعت نیشنل ایکشن پارٹی نے ان میں کسی بھی طرح ملوث ہونے کی تردید کرتے ہوئے ذمہ داری اے کے پارٹی کے نوجوانوں پر عائد کی ہے۔ اے کے پارٹی ان الزامات کو مسترد کرتی ہے۔