پشاور ہائی کورٹ نے پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے انٹرا پارٹی الیکشن اور انتخابی نشان واپس لینے کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کر دیا ہے۔
پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی انتخابات کے معاملے پر الیکشن کمیشن کا فیصلہ پشاور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔
پشاور ہائی کورٹ کے ایک رُکنی بینچ نے منگل کو فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ سنایا۔ عدالت نے کیس کی سماعت نو جنوری تک ملتوی کر دی ہے جس کی سماعت دو رُکنی بینچ کرے گا۔
تحریکِ انصاف کی الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف درخواست کی سماعت پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس کامران حیات میاں خیل نے کی۔
سماعت کے دوران تحریکِ انصاف کے وکیل بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ انتخابی نشان سیاسی پارٹی کی پہچان ہوتی ہے اس کے بہت سنجیدہ اثرات ہوں گے۔ انتخابی نشان پر سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ مخصوص نشستیں بھی سیاسی جماعت کو بغیر انتخابی نشان نہیں مل سکتیں۔ سیاسی جماعت کو انتخابات سے باہر کر دیا گیا۔
پشاور سے وائس آف امریکہ کے نمائندے شمیم شاہد کے مطابق پی ٹی آئی کے وکیل علی زمان ایڈووکیٹ اور شاہ فیصل اتمن خیل نے منگل کو ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کی تھی۔
درخواست میں الیکشن کمیشن کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن کو چیلنج کرنے والے درخواست گزاروں کو بھی فریق بنایا گیا۔
پی ٹی آئی نے درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ جن افراد نے تحریکِ انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن کو چیلنج کیا تھا وہ افراد پی ٹی آئی کے کارکن ہی نہیں ہیں۔ ان افراد کے پاس تو تحریکِ انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن کو چیلنج کرنے کا اختیار ہی نہیں تھا۔
درخواست میں مزید کہا گیا کہ الیکشن کمیشن نے اس کا انتخابی نشان بلا واپس لے لیا ہے۔ کمیشن کے پاس پارٹی انتخابات کے طریقے پر فیصلے کا اختیار نہیں تھا۔
تحریک انصاف نے درخواست میں سینئر ججوں پر مشتمل بینچ بنانے اور آج ہی اس درخواست پر سماعت کی استدعا کی گئی تھی۔
بیرسٹر علی ظفر کا مزید کہنا تھا کہ آئین کا آرٹیکل 17 کہتا ہے کہ ہر شہری تنظیم بنا سکتا ہے۔ اس فیصلے سے آرٹیکل 17 کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔
انہوں نے دلائل دیتے ہوئے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن نے صرف انتخابات پر سوال نہیں اٹھایا بلکہ یہ بھی کہا ہےکہ پارٹی کے انتخابات کے لیے چیف الیکشن کمشنر کو جنرل سیکریٹری نے کیسے تعینات کیا؟
بیرسٹر علی ظفر کے بقول الیکشن کمیشن کو کسی سیاسی جماعت کے ارکان کی کے تقرر کا اختیار نہیں ہے اور نہ اس پر سوال اٹھانے کا اختیار ہے۔ سپریم کورٹ کے اس حوالے سے فیصلے موجود ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن کو یہ اختیار نہیں ہے کہ کسی جماعت کے انٹرا پارٹی انتخابات پر سوال اٹھائے۔ اگر الیکشن کمیشن کو یہ اختیار دے دیا گیا تو پھر یہ آرٹیکل 17 کی خلاف ورزی ہو گی۔
انہوں نے الیکشن ایکٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس حوالے سے دو شقیں ہیں 209 اور 105 جن میں سیاسی جماعت سات دن میں انتخابات سے متعلق سرٹیفیکیٹ الیکشن کمیشن میں جمع کرائے گی۔
دورانِ سماعت جسٹس کامران حیات نے ریمارکس دیے کہ سوال یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کے پاس کون سا اختیار ہے کہ وہ پارٹی سرٹیفیکٹ مسترد کرے۔
جسٹس کامران حیات کا کہنا تھا کہ ہم نے کیس کا فیصلہ نہیں کرنا، آج ہم نے انٹرم ریلیف پر فیصلہ کرنا ہے۔
SEE ALSO: انٹرا پارٹی الیکشن مسترد؛ پی ٹی آئی ’بلے‘ کے انتخابی نشان سے محروم
واضح رہے کہ الیکشن کمیشن نے 22 دسمبر کو تحریکِ انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات کو مسترد کر دیا تھا جس کے بعد پی ٹی آئی بلے کے انتخابی نشان سے محروم ہو گئی تھی۔
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں پانچ رُکنی بینچ نے جمعے کی شب محفوظ فیصلہ سنایا تھا جس میں قرار دیا گیا تھا کہ پی ٹی آئی الیکشن ایکٹ کے تحت انٹرا پارٹی انتخابات کرانے میں ناکام رہی۔ رواں ماہ پی ٹی آئی نے جو انٹرا پارٹی انتخابات کرائے تھے وہ قوانین کے مطابق نہیں تھے۔
الیکشن کمیشن نے سیکشن 215 کے تحت فیصلہ سنایا۔
تحریکِ انصاف کے بانی رکن اکبر ایس بابر نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قرار دینے کا مطالبہ کیا تھا۔ الیکشن کمیشن نے بھی پی ٹی آئی کے پارٹی الیکشن پر اعتراضات اُٹھائے تھے۔
واضح رہے کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا جب پاکستان میں آٹھ فروری 2024 کو ہونے والے عام انتخابات کے لیے امیدواروں کی جانب سے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کا پہلا مرحلہ مکمل ہو گیا ہے جس کے بعد انتخابات کی تیاریاں دوسرے مرحلے میں داخل ہو گئی ہیں۔
الیکشن کمیشن حکام امیدواروں کے کاغذاتِ نامزدگی کی جانچ پڑتال شروع کر چکے ہیں۔ کمیشن کے جاری کردہ انتخابی شیڈول کے مطابق رواں ماہ 25 دسمبر سے 30 دسمبر تک امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کی جائے گی۔ اس کے بعد اعتراضات اور ان کے جواب کا سلسلہ شروع ہوگا۔
شیڈول کے مطابق تمام امیدوار اپنے کاغذاتِ نامزدگی 12 جنوری تک واپس لے سکیں گے جب کہ امیدواروں کو انتخابی نشان 13 جنوری کو دیے جائیں گے۔