شمالی وزیرستان کے ضلعی ہیڈ کوارٹر میران شاہ میں پشتون تحفظ تحریک کا احتجاجی دھرنا بدھ کو تیسرے روز بھی جاری رہا۔ تحریک کے مرکزی رہنما اور ممبر قومی اسمبلی محسن داوڑ خود مظاہرین کی قیادت کر رہے ہیں۔
تازہ ترین پیغام میں محسن داوڑ نے شمالی وزیرستان سے فوج کے مکمل انخلاء کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ جب تک آپ لوگ (فوج) ہمارے وطن، یعنی علاقوں سے نکل نہیں جاتے، تب تک ہمارا احتجاج جاری رہے گا اور ہم مختلف علاقوں میں مظاہروں کے لیے نکلتے رہیں گے۔ قوم پرست سیاسی رہنما اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے بھی اسی طرح کا مطالبہ کر رکھا ہے۔
اس کے جواب میں صوبائی وزیرِ اطلاعات شوکت یوسفزئی نے بدھ کو ایک پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ یہ کیسا مطالبہ ہے؟ کیا فوج پاکستان کی نہیں ہے؟ وہ کیسے ملک کی سرحدوں کی حفاظت نہ کرے۔ شمالی وزیستان میں ہونے والی جھڑپ کے چار دن گزرنے کے بعد خیبر پختونخوا حکومت کے وزیر اطلاعات نے پہلی بار صوبائی حکومت کے جانب سے اس واقع میں سیکورٹی فورسز اور وفاقی حکومت کی حمایت کرتے ہوئے فوج اور دیگر سیکورٹی اداروں کےخلاف پی ٹی ایم اور حزب اختلاف میں شامل جماعتوں اور ان کے رہنماؤں کی تنقید کو بلاجواز قرار دیتے ہوئے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ جن جن لوگوں نے سیکورٹی فورسز پر حملہ کیا ہے ان کےخلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائیگی۔ چاہیے اس میں منتخب ممبران اسمبلی کیوں شامل نہ ہو۔
دوسری طرف علاقے میں صبح سے شام تک کرفیو میں نرمی کر دی گئی ہے۔ اہم سڑکوں پر مقامی لوگوں، سرکاری اہلکاروں اور افسران کو آنے جانے کی اجازت ہے مگر غیر مقامی لوگوں کو ضلع میں نہیں آنے دیا جا رہا۔ بنوں، لکی مروت، ہنگو اور جنوبی وزیرستان کے ساتھ سرحدی چوکیوں پر سیکورٹی اہلکاروں کی نفری موجود ہے جو غیر مقامی لوگوں کو واپس کر دیتی ہے۔ اطلاعات کے مطابق بڑی سڑکوں پر تلاشی کیلئے نئے چیک پوائنٹس بنا دیے گئے ہے۔ تاہم، ملحقہ جنوبی وزیرستان سے تحریک میں شامل نوجوانوں پر مشتمل قافلے کی رزمک پہنچنے کی اطلاع ہے۔
شمالی وزیرستان سے آگے دتہ خیل اور شوال تک سڑک ہر قسم کی آمدروفت کیلئے بند ہے جبکہ تحصیل دتہ خیل میں ابھی تک کرفیو نافذ ہے۔ ضلع بھر میں مواصلاتی نظام ابھی تک معطل ہے۔ تاہم، جزوی طور پر معاشی اور کاروباری سرگرمیاں بحال ہوئی ہیں۔
منگل کی رات ایک آڈیو پیغام میں محسن داوڑ نے کہا ہے کہ حکومت نے اتمان زئی وزیر قبیلے کے سرکردہ مشران پر مشتمل ایک جرگے کے ذریعے مذاکرات اور مصالحت کیلئے رابطہ کیا ہے۔ مگر انہوں نے کہا کہ جب تک تحریک کے دیگر رہنما یہاں نہیں پہنچ پاتے تب تک وہ اس بارے میں اکیلے کوئی فیصلہ نہیں کر سکتے۔
پیغام میں محسن داوڑ نے مطالبات کی تسلیم ہونے تک احتجاجی دھرنا جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔