پختون تحفظ تحریک کے سربراہ منظور پشتین اور دیگر رہنماؤں نے حکوت بالخصوص سیکورٹی اداروں کے عہدیداروں پر زور دیا ہے کہ وہ ان کے بقول پختونوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک پر نظرثانی کرے۔ جبکہ حکومت، بلوچستان سے تعلق رکھنے والے پروفیسر ارمان لونی کے قتل میں ملوث ملزم کو فوری طور پر گرفتار کرے اور ان کو قرار واقعی سزا دے۔ تحریک کے رہنماؤں نے تمام جبری طور پر گمشدہ افراد کی فوری بازیابی اور پختونوں کی مزید گرفتاریاں بند کرنے کا مطالبہ کیا۔
پختون تحفظ تحریک کے رہنما 2 فروری کو بلوچستان کے لورالائی شہر میں قتل کئے جانے والے پروفیسر ارمان لونی کے چہلم کے سلسلے میں منعقد کی جانی والی ایک ریلی سے خطاب کر رہے تھے۔
تحریک کے رہنماؤں نے پہلے اس ریلی کے انعقاد کیلئے انتظامیہ سے شہر کے وسطی اور مصروف ترین خیبر بازار میں اجازت نامہ حاصل کر لیا تھا۔ مگر ایک روز قبل اس اجازت نامے کو منسوخ کر دیا گیا۔ بعد میں اس ریلی کو شہر کے بیرونی علاقے رنگ روڈ پر منتقل کر دیا گیا مگر ہفتے کی شام پہلے ٹریکٹروں کے ذریعے اس میدان میں ہل چلائے گئے اور بعد میں اس میں پانی چھوڑ دیا گیا۔ تاہم تحریک کے رہنما اور کارکن بعد میں کرسیاں لگوا کر جلسہ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
اس موقع پر پولیس فورس کی بھاری نفری بھی تعینات کر دی گئی تھی جبکہ خفیہ اداروں کے اہلکاروں کی بھاری تعداد بھی جلسہ گاہ میں موجود تھی۔
ریلی میں شرکت اور شرکاء سے خطاب کرنے کیلئے مقتول پروفیسر ارمان لونی کی بہن بھی آئی تھیں۔ ورانگہ لونی نے وائس آف امریکہ سے بات چیت میں کہا کہ ان کے بھائی نے پختون قوم کی خاطر زندگی قربان کر دی ہے اور ان کا خون ضرور رنگ لائے گا۔ اُنہوں نے کہا کہ ارمان مرے نہیں بلکہ زندہ ہیں۔ ان کی سوچ اور نظریہ زندہ ہے۔
ریلی میں شرکت کرنے والے نوجوان پختون تحفظ تحریک کے حق میں اور سیکورٹی اداروں کے خلاف نعرے لگا رہے تھے۔
تحریک کے رہنماء ڈاکٹر سید عالم محسود نے کہا کہ اس ریلی کا مقصد نہ صرف پروفیسر ارمان لونی کو خراج عقیدت پیش کرنا ہے بلکہ حکومت اور ریاستی اداروں کی پختون قوم کے خلاف کی جانی والی زیادتیوں کے خلاف آواز اُٹھانا بھی ہے۔
تحریک کی خاتون رہنماء ثناء اعجاز نے بھی حکومت اور حکومتی اداروں پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پختونوں کی نسل کشی جاری ہے اور پروفیسر ارمان کا قتل بھی اس سازش کا حصہ ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ پختونوں کو جبری گمشدگی کے علاوہ ان کی زرخیز زرعی زمینوں کو فوج کے رہائشی منصوبوں میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ سوات اور دیگر علاقوں میں بلاجواز فوجی چھاؤنیاں تعمیر کی جارہی ہے۔
پاکستانی حکومت اور افواج کے ترجمان ادارے پی ٹی ایم کی طرف سے لگائے جانے والے الزامات کے بارے میں میڈیا کی طرف سے پوچھے جانے والے سوالات کا جواب نہیں دیتے۔
جبری طور پر گمشدہ ہونے والوں کے اندارج کیلئے ریلی میں ایک کیمپ قائم کیا گیا تھا جس میں تحریک کے کارکنوں کے بقول 200 سے زائد افراد کا اندارج کیا گیا۔ ریلی میں شریک خواتین اور بوڑھے افراد نے جبری طور پر گمشدہ رشتہ داروں کی تصاویر ہاتھوں میں اُٹھا کر رکھی تھیں۔
پاکستان کی حکومت نے جبری طور پر لاپتہ کیے جانے والے افراد کی بازیابی کے لیے جسٹس رٹائرڈ جاوید اقبال کی سربراہی میں ایک انکوائری کمشن بنا رکھا ہے جس کی کوششوں کے باعث درجنوں لاپتہ افراد واپس اپنے گھروں کو لوٹ چکے ہیں۔ رواں سال جنوری میں پاکستان کی وزارتِ انسانی حقوق نے وزارتِ قانون اور انصاف کو ایک بل کا ڈرافت بھی جمع کرایا تھا جس کے مطابق کسی فرد کو جبری طور پر لاپتہ کرنا جرم ہو گا۔
پختونوں کو درپیش سیکورٹی اور انتظامی مسائل کے حل کیلئے تحریک کا قیام جنوری 2018 کو کراچی پولیس کے جعلی مقابلے میں مارے جانے والے نقیب اللہ محسود کے قتل کے خلاف اسلام آباد میں احتجاجی دھرنے کے دوران عمل میں آیا تھا۔ حکومت اور حکومتی ادارے اس تحریک کے اغراض و مقاصد کو نہ صرف شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں بلکہ اس تحریک میں شامل لوگوں پر ملک دشمنی کا الزام بھی لگاتے ہیں۔ جبکہ تحریک کے رہنما ان الزامات کو مسترد کرتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ملک کے آئین اور قوانین کے مطابق پختونوں کیلئے وہی حقوق اور مراعات مانگتے ہیں جو ملک کے دیگر صوبوں یا قومیتوں کو حاصل ہیں۔
پاکستان کی حکومت نے صوبہ خیبر پختونخواہ کے گورنر کی سربراہی میں صوبے کی مختلف سیاسی جماعتوں کے اراکان پر مستمل ایک کیمیٹی بھی قائم کی ہے جسے پی ٹی ایم سے مذاکرات کا ٹاسک دیا گیا ہے۔