پاکستان میں پشتونوں کے حقوق کے لیے سرگرم 'پشتون تحفظ موومنٹ' کی ایک سرگرم خاتون رکن کو سرکاری ٹی وی چینل 'پاکستان ٹیلی ویژن' کی انتظامیہ نے مبینہ طور پر "اوپر سے آنے والے آرڈر" کی بنیاد پر کام کرنے سے روک دیا ہے۔
حال ہی میں قائم ہونے والی 'پشتون تحفظ موومنٹ' پشتون نوجوانوں میں تیزی سے مقبول ہورہی ہے جس کے الزام ہے کہ اس کے کارکنوں کو ملک کے کئی علاقوں میں گرفتاریوں، دھمکیوں اور دوسرے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
ثناء اعجاز گزشتہ ڈھائی برس سے پاکستان ٹیلی ویژن کے پشاور اسٹیشن سے بطور میزبان وابستہ تھیں اور ہفتے میں ایک دن 'پی ٹی وی نیشنل' سے پشتو زبان میں نشر کیے جانے والے ہفتہ وار پروگرام 'خیبر پختونخوا ٹائم' کے میزبان کے فرائض انجام دے رہی تھیں۔
ثناء اعجاز نے وائس اف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کا پروگرام سیاسی نوعیت کا نہیں تھا بلکہ سماجی مسائل کے حوالے سے ہوا کرتا تھا اور پالیسی کے مطابق اس میں کسی قسم کے سیاسی مباحثے پر پابندی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ انہوں نے ہمیشہ پالیسی کا خیال رکھتے ہوئے سماجی مسائل پر ہی اپنی توجہ مرکوز رکھی۔
ثناء اعجاز نے الزام لگایا کہ گزشتہ ایک ماہ سے انہیں مختلف بہانوں سے پروگرام کرنے سے منع کیا جا رہا تھا اور بدھ کو انہیں یہ کہہ کر پروگرام کی میزبانی سے روک دیا گیا کہ انتظامیہ کو "اُوپر سے آرڈر آیا ہے" کہ انہیں پروگرام نہ کرنے دیا جائے۔
وائس آف امریکہ کے رابطہ کرنے پر پاکستان ٹیلی ویژن پشاور سینٹر کے پروڈیوسر عارف خٹک کا کہنا تھا کہ کسی بھی تنظیم کے ساتھ منسلک رہنا ہر ایک کا ذاتی فعل ہے جس سے ادارے کو کوئی سروکار نہیں۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی وی کے کانٹریکٹ میں صاف لکھا ہے کہ ادارہ ملازم کو کسی بھی وقت بغیر وجہ بتائے نکال سکتا ہے لہذا پی ٹی وی انتظامیہ نکالے جانے کی وجہ بتانے کی پابند نہیں ہے۔
'پشتون تحفظ موومنٹ' پاکستان میں رہنے والے پشتونوں کے حقوق کے لیے گزشتہ پانچ ماہ سے سرگرم ہے۔
تحریک کے حامی اور کارکن پاکستان میں پشتونوں کے ماورائے عدالت قتل اور جبری گمشدگی کے علاوہ سکیورٹی چوکیوں پر عام افراد کے ساتھ ہتک امیز سلوک کے خلاف ملک بھر احتجاج کر رہے ہیں۔
تحریک کے نوجوان قائدین پاکستان کے سکیورٹی اداروں پر اپنے کارکنوں کو ہراساں کرنے کا الزام بھی لگاتے آئے ہیں۔