پاکستان میں پشتونوں کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیم پشتون تحفظ تحریک کے قائدین کے خلاف ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں بھی مقدمہ درج کرلیا گیا ہے جس میں انسدادِ دہشت گردی کی دفعات بھی شامل ہیں۔
مقدمہ کراچی کے مضافاتی علاقے منگھوپیر کے تھانے میں بدھ کو درج کیا گیا ہے جس میں پانچ افراد نامزد ہیں۔
پولیس کے مطابق تھانے کی حدود میں پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین کے کہنے پر 100 سے 150 افراد نے کارنر میٹنگ کی۔
کارنر میٹنگ کے دوران مقدمے میں نامزد ملزمان اکبر خان، وزیر محسود، منور، افتخار اور دیگر نے لوگوں سے 13 مئی کو کراچی میں ہونے والے جلسے کو کامیاب بنانے کی اپیل کی۔
پولیس کے مطابق ملزمان نے تقاریر کے دوران فوجی اداروں پر سنگین نوعیت کے الزامات عائد کیے اور الزام لگایا کہ قبائلی علاقہ جات میں جھوٹے آپریشنز کیے جارہے ہیں جس میں ان کے بقول بے گناہوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔
ملزمان نے تقاریر کے دوران یہ الزام بھی عائد کیا کہ قبائلی علاقہ جات میں محض خوف کی بنا پر امن کے جھوٹے دعوے کیے جارہے ہیں۔ کوئی یہ بتانے کو تیار نہیں کہ ان علاقوں سے لاپتا افراد کو کہاں غائب کیا گیا ہے۔
ملزمان کے خلاف پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 124, 125, 500, 505, 148, 149 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
ان میں صدرِ مملکت اور وفاق کی علامت عہدیداروں کو برا بھلا کہنا، انہیں کام سے روکنے کی دھمکیاں دینا، ملک کے خلاف جنگ پر آمادہ کرنا، بلوہ، ہنگامہ آرائی، ہتکِ عزت، فوجی اداروں میں بغاوت پیدا کرنے کی غرض سے بیانات دینے جیسی سنگین دفعات شامل ہیں۔
اس کے علاوہ مقدمے میں انسدادِ دہشت گردی قوانین کی دفعات بھی شامل کی گئی ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پولیس کے مطابق منظور پشتین کے حامیوں نے کارنرمیٹنگ کرکے دہشت گردی کی ہے۔
منظور پشتین اور ان کے ساتھیوں نے کراچی میں 13 مئی کو جلسہ کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ تاہم اب تک ان کی جانب سے انتظامیہ کو اس جلسے سے متعلق باقاعدہ آگاہ نہیں کیا گیا اور نہ ہی کوئی اجازت حاصل کی گئی ہے۔
منظور پشتین اس سے قبل لاہور، سوات اور پشاور میں جلسے کرچکے ہیں جس میں بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کرکے اپنے مطالبات کے لیے آواز بلند کی تھی۔
ان جلسوں سے متعلق سرگرمیوں پر مختلف شہروں میں پشتون تحفظ موومنٹ کے کارکنوں کے خلاف مقدمات درج ہوتے رہے ہیں۔