پنجاب اسمبلی میں جمعرات کو دوسرے روز بھی اراکین کے درمیان ہاتھا پائی، شور شرابا اور طوفان بدتمیزی کے باعث اجلاس کی کارروائی متاثر ہوئی۔
صوبائی اسمبلی میں اس سیاسی کشیدگی کی وجہ حکمران مسلم لیگ (ن) کے رکن شیخ علاؤالدین کی طرف سے ایک روز قبل حزب مخالف کی نشستوں پر بیٹھی خواتین ارکان کے بارے میں ’نازیبا اورغیر شائستہ‘‘ الفاظ کا استعمال تھا جس پر مسلم لیگ (ق) کی ممبر سیمل کامران نے ان پر اپنا جوتا دے مارا۔
اس جوابی کاروائی کے بعد ایوان بدنظمی کا شکار ہوگیا، اراکین کے درمیان دھینگا مشتی شروع ہوگئی اور اسپیکر رانا اقبال کے تادیبی جملے پر کسی نے کان دھرنے کی زحمت نہ کی۔
جمعرات کو اسپیکرپنجاب اسمبلی نے شیخ علاؤالدین اور سیمل کامران کی رکنیت موجودہ اجلاس کے اختتام تک معطل کردی۔
اپوزیشن کی خواتین ارکان کا الزام ہے کہ انھیں گزشتہ چارسالوں سے’’گالیاں‘‘ دی جارہی ہیں جب کہ وزیراعلیٰ اور اسپیکر اس بارے میں کچھ نہیں کررہے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ 2008ء کے انتخابات کے نتیجے میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی مرکز اور صوبہ پنجاب میں ایک دوسرے کی اتحادی جماعتوں کے طور پر برسر اقتدار رہیں تاہم مسلم لیگ ن نے پہلے مرکزی حکومت سے علیحدگی اختیار کی اور بعد ازاں پنجاب کی حکومت سے پیپلز پارٹی کو علیحدہ کردیا۔
سابقہ حکمران جماعت مسلم لیگ ق کافی عرصہ مرکز میں حزب مخالف کا کردار ادا کرنے کے بعد حکومتی اتحاد میں شامل ہوگئی۔