23 فروری کی صبح آٹھ بجے صحافتی ذمے داروں کی غرض سے پنجاب اسمبلی پہنچا تو اسمبلی کا ماحول ہی الگ تھا۔
اسمبلی جانے والے راستوں پر سخت حفاظتی انتظامات کیے گئے تھے۔ جگہ جگہ پولیس تعینات تھی۔ اسمبلی جانے والے راستوں کی خوب صفائی ستھرائی کی گئی تھی۔
اسمبلی کے اجلاس کا وقت صبح 10 بجے رکھا گیا تھا مگر ارکانِ اسمبلی نو بجے سے ہی اسمبلی پہنچنا شروع ہو گئے تھے۔ نو منتخب اراکین کے چہروں پر خوشی تھی اور وہ خوب تیاری کے ساتھ ایوان پہنچے۔
مجھ سمیت تمام صحافی اس تجسس میں تھے کہ میاں اسلم اقبال کب ایوان پہنچیں گے۔ کیوں کہ اُن کی ممکنہ گرفتاری کے لیے پولیس نے بھرپور تیاری کر رکھی تھی۔
میاں اسلم اقبال کو پی ٹی آئی نے وزیرِ اعلٰی پنجاب کا اُمیدوار نامزد کیا ہے۔ تاہم اُن پر نو مئی کے مقدمات بھی درج ہیں۔ لیکن میاں اسلم اقبال ایوان میں نہ پہنچ سکے۔
میں احاطہ اسمبلی میں موجود تھا کہ اچانک ایک آف وائٹ کوٹ پینٹ میں ملبوس شخص نے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ "ضیاء بھائی اسلام و علیکم۔" میں نے سلام کا جواب دیا اور حیران ہو کر کہا کہ رانا منان تم یہاں کیسے؟ تمہیں اندر کس نے آنے دیا؟ تم تو دنیا نیوز کے مظفر گڑھ سے نمائندے ہو۔ اُس نے زوردار قہقہہ لگایا اور کہا کہ "میں ایم پی اے بن گیا ہوں اب تو میری عزت کر لو۔"
بطور صحافی جہاں میں حیران تھا وہیں خوش بھی تھا کہ جنوبی پنجاب کے ضلع مظفر گڑھ سے ایک صحافی انتخاب جیت کر ایوان کا حصہ بنا ہے۔ میں ابھی اِسی حیرت میں ہی گم تھا کہ دور سے تین افراد ایک جیسے کپڑے پہنے آتے دکھائی دیے۔
قریب آنے پر معلوم ہوا کہ تینوں افراد رشتے میں باپ بیٹا ہیں اور تینوں ہی انتخاب جیت کر اسمبلی کا حصہ بنے ہیں۔
تینوں کا تعلق پاکستان مسلم لیگ (ن) سے ہے جو ضلع راجن پور سے ارکانِ اسمبلی منتخب ہوئے ہیں۔
سردار پرویز علی گورچانی پی پی 292 سے رکن اسمبلی بنے ہیں جو پی پی 293 سے جیتنے والے سردار شیر علی گورچانی اور پی پی 294 سے جیتنے والے سردار شیر افگن گورچانی کے والد ہیں۔
تینوں باپ بیٹوں سے میں نے پوچھا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ علاقے کے لوگوں نے اُن پر اعتماد کیا اور اُنہیں اپنا نمائندہ بنا کر ایوان تک پہنچایا؟
اس پر سردار پرویز علی گورچانی نے جواب دیا کہ ہم سادہ لوگ ہیں۔ لوگوں سے میل جول رکھتے ہیں۔ لوگوں کی عزت کرتے ہیں جس کے جواب میں لوگوں نے بھی اُنہیں عزت دی ہے۔
تینوں باپ بیٹا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی بھی زینت بنے رہے۔ ہر کوئی اُن کی تصویر بنا رہا تھا۔
ابھی میں سوچ رہا تھا کہ پی ٹی آئی کے ارکان کہاں ہیں تو سامنے سے لاہور سے منتخب ہونے والے شیخ امتیار احمد آتے دکھائی دیے جن کی داڑھی بڑھی ہوئی تھی۔
میں نے اُن سے سوال کیا کہ یہ کیا حلیہ بنا رکھا ہے؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ وہ نو مئی کے حملوں میں پولیس کو مطلوب ہیں۔ پولیس سے بچنے کے لیے اُنہوں نے ایسا حلیہ اختیار کیا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ وہ نو مئی کے بعد سے پولیس سے چھپتے پھر رہے ہیں۔ پولیس جب انہیں پکڑنے اُن کے گھر آتی تھی تو وہ درخت پر چڑھ کر چھپ جاتے تھے۔
یاد رہے کہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار سنی اتحاد کونسل میں شامل ہوئے ہیں۔
تقریباً سوا گیارہ بجے اسپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان اسمبلی پہنچے اور 12 بجے اسمبلی کا باقاعدہ اجلاس شروع ہوا۔
ارکانِ اسمبلی کے حلف کے بعد سیکریٹری اسمبلی نے بتایا کہ نئے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کا انتخاب ہفتے کو ہو گا۔
اجلاس میں ن لیگ کے ارکان نواز شریف کی تصاویر لے کر ایوان کے اندر موجود تھے۔ مریم نواز کے اسمبلی آنے پر اراکین نے شیر شیر کے نعرے لگائے جس پر پی ٹی آئی کے ارکان نے بھی خوب جوابی نعرے لگائے۔ پی ٹی آئی ارکان نے بانی پی ٹی آئی اور ن لیگی ارکان نے نواز شریف کے نعرے لگائے۔
حلف لینے کے بعد سیکریٹری اسمبلی نے تمام اراکین کے دستخط کروا کر اُن کی حاضری کو یقینی بنایا اور اجلاس ہفتے کے روز تک ملتوی کر دیا۔