ایشیا میں گرمی کی شدید لہر

فائل فوٹو

گزشتہ دو ہفتوں کے دوران شدید گرمی کے باعث بھارت میں 150 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

ایشیا میں جاری شدید گرمی اور خشک سالی کی وجہ سے کروڑوں افراد کو سنگین صورت حال کا سامنا ہے۔

دنیا میں درجہ حرارت سے متعلق تحقیق کرنے والے ایک سائسندان میکسی میلانو ہیریرا کا کہنا ہے کہ "جنوب مشرقی ایشیا میں گرمی کے موجودہ لہر 1960، 1983 اور 1998 میں گرمی کی شدید لہر ہی کی طرح ہے تاہم جہاں تک اس کے دورانیے اور اثرات کا تعلق ہے یقینی طور پر یہ (بعض ممالک میں) شدید ترین ہو گی"۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال بھارت میں گرمی کی وجہ سے 2,422 افراد ہلاک ہوئے تھے اور گزشتہ دو دہائیوں کے دوران گرمی سے ہونے والی ہلاکتوں کی یہ سب سے زیادہ تعداد ہے۔

گزشتہ دو ہفتوں کے دوران شدید گرمی کے باعث بھارت میں 150 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

ہیریرا نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ"مجھے ڈر ہے گرمی کی یہ لہر جاری رہے گی اور آنے والے ہفتوں میں اس میں مزید اضافہ ہو گا اور بدقسمتی سے اس کی وجہ سے ہلاکتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔"

بھارت کی ریاست مہاراشٹرا کو بدترین خشک سالی کا سامنا ہے جس کی وجہ سے ناصرف فصلوں کو نقصان پہنچا بلکہ مویشی بھی بڑی تعداد میں ہلاک ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ پانی کے ذخیرے بھی خشک ہو گئے ہیں اور پن بجلی اور تھرمل بجلی کی پیداوار میں کمی واقع ہوئی ہے۔

دوسری طرف ملائیشیا میں سیکڑوں اسکولوں کو بند کر دیا گیا ہے اور فصلوں کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔

تھائی لینڈ کو بھی گرمی کے سبب پانی کی قلت کا سامنا ہے جب کہ اس ملک میں چاول کی فصل کی پیداوار میں کمی کی پیشگوئی کی گئی ہے۔

ویتنام جو دنیا میں کافی برآمد کرنے والا دوسرا بڑا ملک ہے، وہاں بھی گرمی اور خشک سالی کی وجہ سے کافی کی فصل شدید متاثر ہوئی ہے۔

رواں سال گرمی کی لہر کو موسمیاتی تغیراتی عمل النینو کا نتیجہ قرار دیا گیا ہے جس کی وجہ سے سطح سمندر کے درجہ حرارت میں اضافہ ہو جاتا ہے ۔

ماہرین کا ماننا ہے کہ النینو کا عمل کمزور ہو رہا ہے اور آئندہ چند مہینوں میں یہ ختم ہو جائے گا۔ تاہم یہ توقع نہیں کی جاسکتی ہے کہ اس کے اثرات سے جلد نجات مل سکتی ہے۔

واضح رہے کہ ماضی میں بھی مون سون سے پہلے جنوبی ایشیا میں گرمی کی لہر ایک معمول ہے تاہم رواں سال اس کے دورانیہ میں اضافہ ہوا ہے۔

بھارت کے موقر اخبار ٹائمز آف انڈیا کے مطابق رواں سال کے پہلے تین ماہ میں درجہ حرارت میں اضافہ ہوا ہے اور اس کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ 2016 گرم ترین سال ہو سکتا ہے۔