روس کے صدر ولادیمر پوتن نے کہا ہے کہ انھیں توقع ہے کہ امریکہ، شام سے متعلق اپنے عزم پر قائم رہے گا اور ان کا ماننا ہے کہ اس ملک کے تنازع (کے خاتمے) سے متعلق معاہدہ ماسکو اور واشنگٹن کا مشترکہ مقصد ہے۔
ان خیالات کا اظہار انھوں نے ہفتہ کو کرغزستان کے دارالحکومت بشکک میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
روسی صدر کے اس بیان سے قبل امریکی وزیرخارجہ جان کیری نے اپنے روسی ہم منصب سرگئی لاوروف کو بتایا تھا کہ شام میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر دی جانے والی امداد کی تقسیم میں بار بار کی تاخیر امریکہ کے لیے قابل قبول نہیں اور روس اس ضمن میں بشارالاسد پر اپنا اثرورسوخ استعمال کرے گا۔
ادھر ترکی میں چیلوگزو کی سرحد سے ہفتہ کو تجارتی سامان لے کر ٹرک شام میں داخل ہو گئے ہیں۔
شام میں جنگ بندی کے حساس معاہدے کا ہفتہ کو چھٹا روز ہے اور فریقین تاحال اس بات پر بحث و تکرار میں مصروف ہیں کہ امدادی سامان کی تقسیم کس طرح یقینی بنائی جائے۔
شام کے سب سے بڑے شہر حلب کا کچھ حصہ باغیوں جب کہ کچھ سرکاری فورسز کے کنٹرول میں ہے اور یہاں کی صورتحال جنگ بندی معاہدے پر عملدرآمد کے لیے ایک خطرہ تصور کی جا رہی ہے۔
اس شہر کے لیے امدادی سامان پہنچانے کی کوششیں پوری طرح سے کامیاب نہیں ہو سکی ہیں جب کہ اقوام متحدہ نے حال ہی میں شامی حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ تمام محصور علاقوں تک امداد کی فراہمی کی اجازت دے۔
شام اور ترکی کی سرحدوں کے درمیان منگل سے امدادی سامان کے دو قافلے کھڑے ہیں اور اقوام متحدہ کے ایک ترجمان کے بقول ان میں سے ایک قافلے کے ٹرکوں پر ڈیڑھ لاکھ سے زائد افراد کے لیے آٹا جب کہ دوسرے قافلے میں 35 ہزار افراد کے لیے ایک مہینے کے راشن کا سامان ہے۔
حلب کے مشرقی حصے میں تقریباً تین لاکھ لوگ موجود ہیں جب کہ حکومت کے زیر کنٹرول مغربی حصے میں موجود شہریوں کی تعداد دس لاکھ سے زائد بتائی جاتی ہے۔