روس کے صدر کا کہنا تھا کہ یوکرین کے معاملے پر تعلقات کو معمول پر لانا صرف ان کے ملک پر ہی منحصر نہیں۔
روس کے صدر ولادیمر پوٹن نے کہا ہے کہ یوکرین کے معاملے پر مغرب اور روس کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیئے۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس کا دارومدار صرف روس پر ہی نہیں اور ان کے بقول تعلقات کو معمول پر لانے کا انحصار مغرب پر ہے۔
پوٹن کے یہ تاثرات روس کی خبر رساں ایجنسیوں نے ایک ٹیلی ویژن انٹرویو سے حاصل کیے جو کہ ہفتہ کو نشر کیا جائے گا۔
اوباما انتظامیہ نے روس کو متنبہ کیا تھا کہ اگر وہ یوکرین کے معاملے پر جنیوا کانفرنس میں ہونے والے نئے بین الاقوامی معاہدے کی پاسداری میں ناکام ہوتا ہے یا مشرقی یوکرین میں اپنی فوج بھیجتا ہے تو اسے مزید پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
امریکی صدر کی مشیر برائے قومی سلامتی سوزن رائس نے جمعہ کو وائٹ ہاؤس میں صحافیوں کو بتایا تھا کہ اگر روس اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام ہوتا ہے تو امریکہ اور اس کے مغربی اتحادی "روس پر اضافی پابندیاں عائد کرنے کے لیے بدستور تیار ہیں۔"
ان کے اس بیان سے پہلے محکمہ خارجہ کی ایک ترجمان جین ساکی بھی یہ کہہ چکی ہیں کہ امریکہ کا یہ ماننا ہے کہ روس مشرقی یوکرین میں سرکاری عمارتوں پر قابض روسی بولنے والے شدت پسندوں کو پیچھے ہٹنے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرسکتا ہے اور یہ اس کی ذمہ داری ہے۔
لیکن مشرقی یوکرین میں روس کے حامی شدت پسندوں کے رہنما ڈینس پشیلین یہ کہہ چکے ہیں کہ ان کے لوگ کسی بھی معاہدے کے پابند نہیں اور وہ یوکرین کی حکومت کے مستعفی ہونے کے بعد ہی ہتھیار پھینکیں گے۔
جمعرات کو یوکرین، روس، امریکہ اور یورپی یونین کے نمائندوں کے درمیان ہونے والی بات چیت کے بعد ہونے والے معاہدے میں سرکاری عمارتوں کا قبضہ چھوڑنے اور شدت پسندوں کو غیر مسلح کرنے کا کہا گیا تھا۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس کا دارومدار صرف روس پر ہی نہیں اور ان کے بقول تعلقات کو معمول پر لانے کا انحصار مغرب پر ہے۔
پوٹن کے یہ تاثرات روس کی خبر رساں ایجنسیوں نے ایک ٹیلی ویژن انٹرویو سے حاصل کیے جو کہ ہفتہ کو نشر کیا جائے گا۔
اوباما انتظامیہ نے روس کو متنبہ کیا تھا کہ اگر وہ یوکرین کے معاملے پر جنیوا کانفرنس میں ہونے والے نئے بین الاقوامی معاہدے کی پاسداری میں ناکام ہوتا ہے یا مشرقی یوکرین میں اپنی فوج بھیجتا ہے تو اسے مزید پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
امریکی صدر کی مشیر برائے قومی سلامتی سوزن رائس نے جمعہ کو وائٹ ہاؤس میں صحافیوں کو بتایا تھا کہ اگر روس اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام ہوتا ہے تو امریکہ اور اس کے مغربی اتحادی "روس پر اضافی پابندیاں عائد کرنے کے لیے بدستور تیار ہیں۔"
ان کے اس بیان سے پہلے محکمہ خارجہ کی ایک ترجمان جین ساکی بھی یہ کہہ چکی ہیں کہ امریکہ کا یہ ماننا ہے کہ روس مشرقی یوکرین میں سرکاری عمارتوں پر قابض روسی بولنے والے شدت پسندوں کو پیچھے ہٹنے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرسکتا ہے اور یہ اس کی ذمہ داری ہے۔
لیکن مشرقی یوکرین میں روس کے حامی شدت پسندوں کے رہنما ڈینس پشیلین یہ کہہ چکے ہیں کہ ان کے لوگ کسی بھی معاہدے کے پابند نہیں اور وہ یوکرین کی حکومت کے مستعفی ہونے کے بعد ہی ہتھیار پھینکیں گے۔
جمعرات کو یوکرین، روس، امریکہ اور یورپی یونین کے نمائندوں کے درمیان ہونے والی بات چیت کے بعد ہونے والے معاہدے میں سرکاری عمارتوں کا قبضہ چھوڑنے اور شدت پسندوں کو غیر مسلح کرنے کا کہا گیا تھا۔