|
روس کے صدر ولادیمیر پوٹن نے جمعرات کو کہا کہ طالبان، روس میں ایک کالعدم گروپ ،دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ماسکو کے "اتحادی" ہیں کیونکہ ان کا افغانستان پر کنٹرول ہے۔
ماسکو نے برسوں سے طالبان کے ساتھ تعلقات کو اس کے باوجود فروغ دیا ہے کہ وہ روس میں 2003 سے ایک کالعدم تنظیم ہے اور پوٹن نے گزشتہ ماہ ماسکو پر زور دیا کہ وہ طالبان حکومت کے ساتھ تعلقات استوار کرے۔
پوٹن نے قازقستان کے دارالحکومت آستانہ میں شنگھائی تعاون تنظم کونسل کے سربراہی اجلاس کے موقع پر کہا کہ "ہمیں یہ فرض کرنا چاہیے کہ طالبان کا ملک کے اقتدار پر کنٹرول ہے۔ اور اس اعتبار سے طالبان بلا شبہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہمارے اتحادی ہیں، کیونکہ کوئی بھی حکام اس ریاست کے استحکام میں دلچسپی رکھتے ہیں جس پر وہ حکومت کرتے ہیں۔"
SEE ALSO: شنگھائی تعاون تنظیم، عالمی استحکام کی ایک اہم قوت ہے: پوٹنطالبان برسوں سے افغانستان میں جہادی حریف اسلامک اسٹیٹ خراسان، (IS-K) کے خلاف لڑ رہے ہیں۔
مارچ میں، اسلامک اسٹیٹ خراسان کے جنگجوؤں نے ماسکو کے ایک کنسرٹ ہال پر حملے میں 140 سے زیادہ لوگوں کو ہلاک کر دیا تھا، جو کہ روس میں تقریباً دو عشروں میں مہلک ترین دہشت گرد حملہ تھا۔
2021 میں افغانستان پر قبضہ کرنے کے بعد سے، طالبان نے اسلامی قانون کی ایک انتہائی شکل کو نافذ کیا ہے جو خواتین کو عوامی زندگی میں شمولیت سے مؤثر طریقے سے روکتا ہے۔
پوٹن نے کہا کہ طالبان نے "کچھ ذمہ داریاں پوری کی ہیں" لیکن یہ کہ اب بھی "ایسے مسائل ہیں جن پر ملک کے اندر اور عالمی برادری کی جانب سے مسلسل توجہ درکار ہے۔ "
SEE ALSO: افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کے ہزار دن مکمل، 'اپنی کلاس فیلوز کا الوداع بھی نہیں کہہ سکی'انہوں نے مزید کہا کہ ’’مجھے یقین ہے کہ طالبان افغانستان میں ہر چیز کے مستحکم ہونے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔‘‘
ماسکو نے افغانستان کے ساتھ تعلقات کو مستحکم کیا ہے -- جس کے ساتھ 1980 کے عشرے میں سوویت حملے کے بعد -- اس ملک سے امریکہ کے انخلاء کے بعد سے، اس کی ایک پیچیدہ تاریخ ہے۔
لیکن وہ طالبان کی حکومت کو سرکاری طور پر تسلیم کرنے میں ناکام رہا ہے اور جسے وہ "اسلامی امارت افغانستان" کہتی ہے۔
SEE ALSO: افغانستان میں انسانی حقوق سے متعلق رپورٹ: 'خواتین پر پابندیاں جرائم کے زمرے میں آتی ہیں'قازقستان کے دارالحکومت آستانہ میں 'شنگھائی تعاون تنظیم' (ایس سی او) کا دو روزہ اجلاس جمعرات کو ختم ہو گیا ہے۔
شنگھائی کو آپریشن آرگنائزیشن 2001 میں قائم ہوئی تھی جس میں ابتدائی طور پر روس، چین اور وسطی ایشائی ملک شامل تھے۔
بعد ازاں اس میں بھارت، پاکستان اور ایران کو بھی شامل کر لیا گیا اور اس سال بیلا روس کو بھی اس کی رکنیت مل گئی ہے۔
SEE ALSO: کیا ماسکو طالبان پر سے پابندیاں ہٹانے والا ہے؟اس گروپ کا بنیادی مقصد منشیات کی اسمگلنگ اور ملک کو درپش عدم استحکام کے خطرے کے مقابلے کے لیے مشترکہ نقطہ نظر پیدا کرنا ہے۔
اس اجلاس کی ایک اہم بات یہ رہی کہ بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی نے اس میں شرکت نہیں کی۔ اس سے قبل پانچ اجلاسوں میں مودی بذات خود شریک ہوئے تھے۔
اس رپورٹ کا مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے۔