روس کے صدر ولادی میر پیوٹن نے کہا ہے کہ شام میں بمباری کرنے والا روسی جنگی طیارہ مار گرانے کے فیصلے پر ترک رہنماؤں کو پچھتانا پڑے گا۔
جمعرات کو روسی پارلیمان سے سالانہ خطاب کرتے ہوئے صدر ولادی میر پیوٹن ایک بار پھر ترکی پر گرجے برسے اور گزشتہ ہفتے ترکی کی جانب سے سرحدی خلاف ورزی کے الزام پر روس کا ایک جنگی طیارہ گرانے کی کارروائی پر سخت برہمی کااظہار کیا۔
روسی صدر نے اپنے خطاب کے آغاز پر ارکانِ پارلیمان سے کہا کہ وہ ترک فضائیہ کی جانب سے گرائے جانے والے روسی طیارے کے ہلاک پائلٹ کی یاد میں ایک منٹ کی خاموشی اختیار کریں۔
بعد ازاں اپنے خطاب میں صدر پیوٹن نے ترکی کی کارروائی کو "خطرناک جنگی جرم" قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ ایک بار پھر ترک رہنماؤں کو باور کرانا چاہتے ہیں کہ انہیں اپنے اس اقدام پر پچھتانا پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ اگر ترک رہنما یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی اس کارروائی پر روس کا ردِ عمل ترکی سے درآمدات معطل کرنے اور اس پر اقتصادی پابندیاں عائد کرنے تک محدود رہے گا تو یہ ان کی بھول ہے۔
اپنے خطاب میں روسی صدر نے اپنے اس الزام کا اعادہ کیا کہ ترک حکومت داعش سے تیل خرید رہی ہے اور شدت پسند تنظیم کے جنگجووں کو پناہ اور مدد فراہم کر رہی ہے۔
گزشتہ ماہ ترکی کی جانب سے سرحدی خلاف ورزی کے الزام پر شام میں باغیوں کے ٹھکانوں پر بمباری کرنے والا ایک روسی طیارہ مار گرائے جانے کے بعد سے دونوں ملکوں کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں۔
روس نے ترکی سے کئی اشیا کی درآمدات معطل کرتےہوئے اس پر اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا ہے جب کہ اپنے شہریوں کو ترکی کے سفر سے گریز کرنے کی ہدایت کی ہے۔
جمعرات کو روسی صدر کی تنقید کے بعد ترک حکومت نے پیش کش کی ہے کہ وہ ماسکو کے ساتھ روسی طیارہ مار گرائے جانے کے واقعے سے متعلق معلومات کے تبادلے پر تیار ہے۔
روس کی جانب سے ترکی کی اس پیش کش پر ردِ عمل تاحال سامنے نہیں آیا ہے۔