مبصرین کے مطابق ماسکو کے لیے یوکرین کے معاملے پر بیجنگ سے اپنے موقف کی حمایت حاصل کرنا بھی مشکل ہوگا۔
یوکرین کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی کے سائے میں جمعہ کو ہزاروں روسی فوجیوں نے ملک کے عسکری سازو سامان کے ساتھ "سالانہ یوم فتح" کی پریڈ کی۔
ماسکو کے ریڈ اسکوائر میں صدر ولادیمر پوٹن نے اس پریڈ کا معائنہ کیا جو کہ جنگ عظیم دوئم میں روس کی فتح کی یاد میں ہر سال منعقد کی جاتی ہے۔ اس میں 11 ہزار فوجی شریک ہیں۔
یوکرین کے مشرقی علاقوں میں ماسکو نواز علیحدگی پسندوں کی طرف سے کیئف کے خلاف مسلح مزاحمت کی وجہ سے بھی روس کو مغربی دنیا اور امریکہ کی ناراضگی کا سامنا ہے۔
صدر ولادیمر پوٹن رواں ماہ کے اواخر میں چین کا دورہ کریں گے جہاں توقع ہے کہ وہ توانائی کے معاہدے کو حتمی شکل دینے کے علاوہ مغرب سے بڑھتی ہوئی کشیدگی کے تناظر میں بیجنگ سے سفارتی تعلقات میں وسعت پر بات چیت کریں گے۔
یوکرین میں روس نواز علیحدگی پسندوں کی کیئف کی فورسز کے ساتھ لڑائی کی وجہ سے روس کی مغربی سرحد پر بھی کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔
دوسری جانب روس کے ایشیائی پڑوسی ممالک خصوصاً چین بھی اس ساری صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔
لندن اسکول آف اکنامکس سے وابستہ پروفیسر اور تجزیہ کار ارن ویسٹاڈ کہتے ہیں کہ چین بدستور عدم مداخلت کی پالیسی پر زور دیتا آرہا اور اس روس کے یوکرین کے ساتھ معاملات پر بیجنگ کا پوٹن کے لیے موافق ردعمل تھوڑا مشکل دکھائی دیتا ہے۔
چین کے صدر ژی جنپنگ نے گزشتہ سال منصب صدارت سنبھالنے کے بعد اپنے پہلے غیر ملکی دورے کے لیے ماسکو کا انتخاب کیا تھا اور اس دوران انھوں نے توانائی کے متعدد معاہدوں پر دستخط بھی کیے تھے۔
روس چین کے لیے اپنے تیل کی برآمدات کو تین گنا بڑھانا چاہتا ہے اور مبصرین کے مطابق یوکرین کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی نے ماسکو کو یورپ کے علاوہ کہیں اور اپنی تیل اور گیس کی منڈیاں تلاش کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔
کنگز کالج لندن کی وابستہ نتاشا کوہرٹ کہتی ہیں کہ صدر پوٹن چین کے ساتھ پائپ لائن کے منصوبے کے معاہدے کو حتمی شکل تو دینا چاہتے ہیں لیکن ان کے بقول یہ بظاہر اتنا آسان نہیں ہے۔
"اس میں بہت مشکل مرحلہ بھی درپیش ہوگا کیونکہ چین رسد کی مختلف انواع کو یقینی بنانے کا خواہاں ہے۔"
کوہرٹ کے مطابق ماسکو کے لیے یوکرین کے معاملے پر بیجنگ سے اپنے موقف کی حمایت حاصل کرنا بھی مشکل ہوگا۔
ارن ویسٹاڈ کہنا تھا کہ چین کے دیگر عالمی طاقتوں کے ساتھ تعلقات بھی کچھ اتنے اچھے نہیں اور خصوصاً چین کے اقتصادی مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے بیجنگ ماسکو کی کھلم کھلا حمایت کر کے امریکہ اور یورپ سے اپنا تعلقات کو بگاڑنا نہیں چاہے گا۔
امریکہ اور یورپ یوکرین کے بحران کو بڑھاوا دینے کا الزام روس پر عائد کرتے رہے ہیں جب کہ ماسکو ان الزامات کو رد کرتے ہوئے کہہ چکا ہے کہ یہ معاملہ اس کے بقول کیئف کی "نااہل حکومت" کی وجہ سے بگڑتا جارہا ہے۔
مشرقی ایشیا کی ایک اور بڑی طاقت جاپان پہلے ہی بعض روسی عہدیداروں پر سفری پابندیاں عائد کرچکا ہے اور گزشتہ ہفتے جنیوا کے دورے کے دوران وزیراعظم شنزو ابی نے اس عزم کا اعادہ کیا تھا کہ ان کا ملک یورپ کا اتحادی رہے گا۔
مبصرین کا خیال ہے کہ مغرب کے ساتھ کشیدہ تعلقات اور یوکرین میں بڑھتی ہوئی بدامنی کے تناظر میں روس کے لیے ایشیا کے ساتھ اتحاد بظاہر مشکل نظر آتا ہے۔
ماسکو کے ریڈ اسکوائر میں صدر ولادیمر پوٹن نے اس پریڈ کا معائنہ کیا جو کہ جنگ عظیم دوئم میں روس کی فتح کی یاد میں ہر سال منعقد کی جاتی ہے۔ اس میں 11 ہزار فوجی شریک ہیں۔
یوکرین کے مشرقی علاقوں میں ماسکو نواز علیحدگی پسندوں کی طرف سے کیئف کے خلاف مسلح مزاحمت کی وجہ سے بھی روس کو مغربی دنیا اور امریکہ کی ناراضگی کا سامنا ہے۔
صدر ولادیمر پوٹن رواں ماہ کے اواخر میں چین کا دورہ کریں گے جہاں توقع ہے کہ وہ توانائی کے معاہدے کو حتمی شکل دینے کے علاوہ مغرب سے بڑھتی ہوئی کشیدگی کے تناظر میں بیجنگ سے سفارتی تعلقات میں وسعت پر بات چیت کریں گے۔
یوکرین میں روس نواز علیحدگی پسندوں کی کیئف کی فورسز کے ساتھ لڑائی کی وجہ سے روس کی مغربی سرحد پر بھی کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔
دوسری جانب روس کے ایشیائی پڑوسی ممالک خصوصاً چین بھی اس ساری صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔
لندن اسکول آف اکنامکس سے وابستہ پروفیسر اور تجزیہ کار ارن ویسٹاڈ کہتے ہیں کہ چین بدستور عدم مداخلت کی پالیسی پر زور دیتا آرہا اور اس روس کے یوکرین کے ساتھ معاملات پر بیجنگ کا پوٹن کے لیے موافق ردعمل تھوڑا مشکل دکھائی دیتا ہے۔
چین کے صدر ژی جنپنگ نے گزشتہ سال منصب صدارت سنبھالنے کے بعد اپنے پہلے غیر ملکی دورے کے لیے ماسکو کا انتخاب کیا تھا اور اس دوران انھوں نے توانائی کے متعدد معاہدوں پر دستخط بھی کیے تھے۔
روس چین کے لیے اپنے تیل کی برآمدات کو تین گنا بڑھانا چاہتا ہے اور مبصرین کے مطابق یوکرین کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی نے ماسکو کو یورپ کے علاوہ کہیں اور اپنی تیل اور گیس کی منڈیاں تلاش کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔
کنگز کالج لندن کی وابستہ نتاشا کوہرٹ کہتی ہیں کہ صدر پوٹن چین کے ساتھ پائپ لائن کے منصوبے کے معاہدے کو حتمی شکل تو دینا چاہتے ہیں لیکن ان کے بقول یہ بظاہر اتنا آسان نہیں ہے۔
"اس میں بہت مشکل مرحلہ بھی درپیش ہوگا کیونکہ چین رسد کی مختلف انواع کو یقینی بنانے کا خواہاں ہے۔"
کوہرٹ کے مطابق ماسکو کے لیے یوکرین کے معاملے پر بیجنگ سے اپنے موقف کی حمایت حاصل کرنا بھی مشکل ہوگا۔
ارن ویسٹاڈ کہنا تھا کہ چین کے دیگر عالمی طاقتوں کے ساتھ تعلقات بھی کچھ اتنے اچھے نہیں اور خصوصاً چین کے اقتصادی مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے بیجنگ ماسکو کی کھلم کھلا حمایت کر کے امریکہ اور یورپ سے اپنا تعلقات کو بگاڑنا نہیں چاہے گا۔
امریکہ اور یورپ یوکرین کے بحران کو بڑھاوا دینے کا الزام روس پر عائد کرتے رہے ہیں جب کہ ماسکو ان الزامات کو رد کرتے ہوئے کہہ چکا ہے کہ یہ معاملہ اس کے بقول کیئف کی "نااہل حکومت" کی وجہ سے بگڑتا جارہا ہے۔
مشرقی ایشیا کی ایک اور بڑی طاقت جاپان پہلے ہی بعض روسی عہدیداروں پر سفری پابندیاں عائد کرچکا ہے اور گزشتہ ہفتے جنیوا کے دورے کے دوران وزیراعظم شنزو ابی نے اس عزم کا اعادہ کیا تھا کہ ان کا ملک یورپ کا اتحادی رہے گا۔
مبصرین کا خیال ہے کہ مغرب کے ساتھ کشیدہ تعلقات اور یوکرین میں بڑھتی ہوئی بدامنی کے تناظر میں روس کے لیے ایشیا کے ساتھ اتحاد بظاہر مشکل نظر آتا ہے۔