|
ولادیمیر پوٹن ایک مرتبہ پھر روس کے صدر منتخب ہو گئے ہیں۔ ان کا انتخاب ایسے الیکشن کے نتیجے میں ہوا جس میں ان کے سیاسی مخالفین کو ڈرانے، دھمکانے یا جیل بھیجے جانے کے بعد کوئی حقیقی متبادل انتخابی دوڑ میں شامل نہیں تھا۔
پوٹن کی 24 سالہ حکمرانی کو مزید طوالت دینے والے انتخابات جمعے کو شروع ہوئے۔ تین روز تک جاری رہنے والے انتخابات سخت پابندی کے ماحول میں ہوئے اور اس دوران پوٹن پر یا یوکرین میں جاری جنگ پر عوامی تنقید کی ممانعت تھی۔
روس کے سنٹرل الیکشن کمیشن کے نتائج کے مطابق پوٹن کو 87 فی صد ووٹ ملے۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق کمیونسٹ امیدوار نکولائی خریٹونوف چار فی صد سے بھی کم ووٹ لے سکے اور وہ دوسرے نمبر پر رہے۔ انتخابات میں نئے امیدوار ولادیسلاو داوانکوف تیسرے نمبر پر جب کہ انتہائی قوم پرست لیونیڈ سلٹسکی چوتھے نمبر پر رہے۔
صدر پوٹن نے اپنے لیے چھ سالہ نئی مدت کا جشن مناتے ہوئے حامیوں سے کہا کہ وہ انتخابات کو جمہوری سمجھتے ہیں۔ انہوں نے ووٹ کے خلاف صدائے احتجاج کو بھی مسترد کردیا۔
SEE ALSO: روس کی سالمیت کو خطرہ ہوا تو جوہری ہتھیار استعمال کر سکتے ہیں: پوٹنپوٹن نے کہا کہ "ہمارے سامنے بہت سے کام ہیں، لیکن جب ہم مضبوط ہوتے ہیں تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کوئی ہمیں دھمکانا چاہتا ہے، ہمیں دبانا چاہتا ہے۔ تاریخ میں کبھی کوئی بھی (یہ کرنے میں) کامیاب نہیں ہوا، وہ اب کامیاب نہیں ہوئے، اور وہ مستقبل میں کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔"
مغربی ممالک میں روس کے صدارتی انتخابات پر سوال اٹھائے جار رہے ہیں۔
وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان نے ماسکو کے صدارتی انتخابات پر کہا کہ یہ واضح ہے کہ انتخابات آزادانہ اور منصفانہ نہیں ہیں کیوں کہ پوٹن نے سیاسی مخالفین کو قید کیا اور دوسروں کو اپنے خلاف انتخاب لڑنے سے روکا۔
ادھر روسی جارحیت کا مقابلہ کرنے والے یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی نے اتوار کو ایک خطاب میں کہا کہ پوٹن اقتدار کے عادی ہو چکے ہیں اور وہ اپنی ذاتی طاقت کو طول دینے کی خاطر ہر قسم کا برا کام کریں گے۔
برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ کیمرون نے روسی صدارتی انتخابات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ماسکو کے صدارتی انتخابات آزادانہ اور منصفانہ نہیں لگتے۔
انہوں نے الیکشن میں ووٹروں کے لیے انتخابی امیدواروں کی کمی پر تنقید کی اور کہا کہ روسی صدارتی انتخاب کی کسی بھی آزاد یورپی مبصر مشن نے نگرانی نہیں کی۔
خیال رہے کہ پوٹن کے شدید ترین سیاسی مخالف الیکسی نوالنی کا گزشتہ ماہ آرکٹک جیل میں انتقال ہو گیا تھا۔ اس کے علاوہ پوٹن کے دیگر ناقدین یا تو جیل میں ہیں یا جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
لیکن نوالنی کی آخری سیاسی درخواست پر عمل کرتے ہوئے ووٹروں نے لمبی قطاروں میں جمع ہوکر بڑے شہروں کے پولنگ اسٹیشنوں پر دوپہر کے وقت پوٹن کے خلاف علامتی ووٹ ڈالنے کا اظہار کیا۔
SEE ALSO: الیکسی نوالنی کی ہلاکت؛ امریکہ کی 500 روسی کمپنیوں اور شخصیات پر پابندینوالنی کے ساتھیوں نے لوگوں کو احتجاج میں حصہ لینے کی ترغیب دی جس کی تائید خود نوالنی نے فروری میں سائبیریا کی جیل میں اپنی اچانک موت سے کچھ دیر پہلے کی تھی۔
پوٹن نے نوالنی کے انتقال پر اپنے پہلے عوامی تبصرے میں ان کی موت کو ایک 'افسوس ناک واقعہ' قرار دیا تھا۔
پکڑ دھکڑ
صدارتی انتخابات کے دوران مختلف پولنگ اسٹیشنوں پر توڑ پھوڑ کے کئی درجن واقعات بھی رپورٹ ہوئے۔
روس میں سیاسی گرفتاریوں پر نظر رکھنے والے گروپ 'او وی ڈی انفو' کے مطابق اتوار کو ملک کے 14 شہروں میں 50 سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا۔
روسی صدارتی انتخابات کے دوران دنیا کے کئی ملکوں میں روسی سفارت خانوں کے سامنے مظاہرے بھی ہوئے۔ آسٹریلیا، آرمینیا، قازقستان اور جاپان میں روسی سفارتی مشن کے پولنگ اسٹیشنوں پر، سینکڑوں روسی دوپہر کے وقت قطار میں کھڑے تھے۔
نوالنی کی بیوہ یولیا نوالنایا اپنے خاوند کی موت کے بعد ان کی سیاسی مہم کا چہرہ بن گئی ہیں۔ انہوں نے 15 مارچ کو ہنگری کے دارالحکومت بڈاپیسٹ میں ایک ریلی سے خطاب میں کہا تھا کہ الیکسی بہت آسان چیزوں کے لیے لڑ رہے تھے جن میں آزادیٔ اظہار، منصفانہ انتخابات، جمہوریت، حقوق، بدعنوانی اور جنگ کے بغیر زندگی گزارنا شامل تھے۔
نوالنایا نے کہا تھا کہ "پوٹن روس نہیں ہیں اور روس پوٹن نہیں ہے۔"