برطانیہ کی ملکہ کمیلا پارکر ’باربی‘ گڑیاکے قالب میں

برطانیہ کی ملکہ کمیلا کو ویمن آف دی ورلڈ فاؤنڈیشن کی طرف سے ان کی ہمشکل باربی ڈول کا تحفہ خواتین کے عالمی دن کے موقع کی ایک تقریب میں پیش کیا گیا ، فوٹو اے ایف پی ، بارہ مارچ 2024

  • برطانیہ کی ملکہ برطانیہ کو ان کی ہم شکل کا باربی گڑیا کا تحفہ، ویمن آف دی ورلڈ فاؤنڈیشن کی صدر کے طور پر ان کی خدمات کے اعتراف میں پیش کیا گیا ۔
  • کمیلا باربی ڈول ملکہ کامیلا جیسے ہی لباس میں ملبوس تھی
  • اس موقع پر بلجیم کی ملکہ اور گزشتہ سال بلاک بسٹر فلم باربی کی راوی، اداکارہ ہیلن میرن بھی موجود تھیں ۔
  • ہم سب کے پاس ایک باربی ہونی چاہیےـ"کمیلا

باربی ڈول پر بننے والی فلم ، باربی نے کوئی آسکر ایوارڈ تو نہیں جیتا لیکن اس نے منگل کو ایک نئی دوست ضرور بنا لی اور وہ ہیں برطانیہ کی ملکہ کمیلا پارکر ۔

“ آپ مجھے میری عمر سے پچاس سال پیچھے لے گئے ہیں۔ ہم سب کے پاس ایک باربی ہونی چاہیےـ" برطانیہ کی ملکہ کمیلا نےیہ الفاظ مزاحاً اس وقت ادا کیے جب انہیں ان کی ہمشکل اور ہم لباس باربی گڑیا کے ایک ماڈل کا تحفہ پیش کیا گیا۔

چھیتر سالہ کمیلا کو، یہ تحفہ ویمن آف دی ورلڈ فاؤنڈیشن، ڈبلیو او ڈبلیو کی صدر کی حیثیت سے ان کی خدمات کے اعتراف میں پیش کیا گیا تھا۔

برطانیہ کی ملکہ ہ کمیلا ویمن آف دی ورلڈ فاؤنڈیشن کی طرف سے اپنی ہم شکل اور ہم لباس باربی ڈول کے تحفے کو تھامے ہوئےہیں ، فوٹو اے ایف پی ، بارہ مارچ 2024

اس تقریب میں کمیلا اور باربی ایک جیسے نیلے رنگ کےلباس میں ملبوس تھیں۔

انہیں یہ تحفہ ڈبلیو ڈبلیو گرلز فیسٹیول بس میں پیش کیا گیاجس نے صنفی مساوات کے فروغ کے لیے ملک بھر کا دورہ کیا تھا اور شاہی خاندان کی مرکزی لندن کی رہائش گاہ،بکنگھم پیلیس کو اپنی آخری منزل بنایا تھا۔

ا ن کے ساتھ اس موقع پر بلجیم کی ملکہ اور گزشتہ سال بلاک بسٹر فلم باربی کی راوی، اداکارہ ہیلن میرن بھی تھیں ۔

ہیلن میرن نے 2007 میں فلم کوئین میں آنجہانی ملکہ ایلزبیتھ دوم کا کردار ادا کیا تھا اور بہترین ایکٹریس کا آسکر ایوارڈ حاصل کیا تھا۔

گزشتہ ہفتے انہیں بھی ان کی ہم شکل باربی گڑیاپیش کی گئی جس کے ساتھ ایک چھوٹا سا آسکر مجسمہ بھی تھا۔

باربی ڈول کی اپنی کہانی

امریکی ریاست کیلی فورنیا میں کلاسیک باربی ڈول کے نئے اور پرانے ماڈلز کی نمائش فوٹو رائٹرز 22 فروری 2024

نو مارچ 1959 کو پہلی بار منظر ِعام پر آنے والی گڑیا’ باربی ‘ کی لانچ کی کہانی بھی کسی فلم سے کم نہیں ہے۔ اس کی خالق اور کھلونے بنانے والی کمپنی 'مٹیل' کی شریک بانی رتھ ہینڈلر کو اس کا آئیڈیا اس وقت آیا تھا جب انہوں نے اپنی بیٹی کو کاغذ کی گڑیا سے کھیلتے دیکھا۔

انہوں نے سوچا کہ کیوں نہ اس کاغذ کی گڑیا کے بجائے پلاسٹک کی گڑیا ہو جو خودمختار ہونے کے ساتھ ساتھ دیکھنے میں بھی بڑی نظر آئے ۔

رتھ ہینڈلر نے جب یہ آئیڈیا اپنے شوہر ایلیٹ کو بتایا جو اس وقت مٹیل کے شریک بانی تھے، تو انہوں نے اور ان کی کمپنی کے ڈائریکٹرز نے اسے رد کردیا۔

بعد ازاں رتھ نے جرمنی میں مقبولیت حاصل کرنے والی ڈول 'بلڈ للی 'سے متاثر ہوکر ایک گڑیا ڈیزائن کی جسے انہوں نے باربی کا نام دیا۔

اس باربی نے سن 1959 میں ہونے والے امریکی انٹرنیشنل ٹوائے فئیر میں ڈیبیو کرکے تہلکہ مچا دیا۔اس وقت سے لے کر اب تک باربی کو دنیا کی مقبول ترین گڑیا کے طور پر جانا جاتا ہے۔

فائل فوٹو

انسائیکلو پیڈیا 'بریٹینیکا' کے مطابق دنیا بھر میں ہر سیکنڈ میں دو ’باربی‘ ڈولز فروخت ہوتی ہیں۔ پہلی بننے والی باربی نے ایک سوئم سوٹ زیب تن کیا ہوا تھا جب کہ اس نے لپ اسٹک بھی لگائی ہوئی تھی جو اسے بچوں کے لیے بننے والی دیگر گڑیاؤں سے منفرد بناتی تھی۔ لیکن اس کے بعد باربی ڈول کو کئی اعتراضات اور تنازعات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

کہنے کو باربی صرف ایک گڑیا ہے لیکن امریکی پاپ کلچر میں اسے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ ایتھلیٹ سے لے کر پائلٹ، ڈاکٹر سے لے کر امریکی صدر تک، باربی نے ہر روپ میں خود کو ڈھال کر اسکی عکاسی کی کہ خواتین کو محدود نہیں کیا جا سکتا۔

بعد ازاں باربی کی دوستوں کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا اور اب ملکہ کمیلا بھی باربی کی دوستوں میں شامل ہو چکی ہیں۔

باربی کے دوست ہر رنگ و نسل سے تعلق رکھتے تھے۔ باربی کے تخلیق کاروں نے 1980 میں پہلی سیاہ فام باربی بھی متعارف کرائی جس کےبعدنیٹو امریکی، اور لاطینی باربی بھی لانچ کی گئی۔

SEE ALSO: کبھی پابندی کبھی اعتراضات؛ باربی ڈول کی اپنی کہانی کیا ہے؟

باربی کو اس کے فگر اور کپڑوں کی وجہ سے مسلمان ملکوں میں ویسی پذیرائی نہیں ملی جتنی کہ اسے دنیا بھر میں ملی۔

سن 1995 میں سعودی عرب نے اس کی فروخت پر پابندی بھی لگائی کیوں کہ ان کے خیال میں باربی کے کپڑے اسلامی تعلیمات کے مطابق نہیں تھے اور یوں باحجاب گڑیائیں منظر عام پر آئیں جو باربی جیسی تھیں لیکن ان کے سر ڈھکے ہوئے تھے۔

یہی نہیں 2012 میں ایران میں بھی باربی پر اس لیے پابندی عائد کی گئی تھی کیوں کہ وہاں کی حکومت کے خیال میں یہ گڑیا مغربی ثقافت کی نمائندگی کررہی تھی۔

اس رپورٹ کا کچھ مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے۔