افغانستان کے قدامت پسند معاشرے میں گو کہ حالیہ برسوں میں مختلف شعبوں میں خواتین کی نمائندگی تو دیکھنے میں آئی ہے لیکن اب بھی یہاں کی خواتین کو بہت سے چیلنجز اور خطرات کا سامنا ہے۔
لیکن شمالی شہر قندوز سے تعلق رکھنے والی زرغونہ حسن ایک ایسی باہمت خاتون ہیں جو اپنی جان کو لاحق خطرے کو بھی خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنی ہم وطن خواتین کے حقوق کے لیے آواز بلند کرتی آ رہی ہیں۔
وہ شہر میں ایک ریڈیو اسٹیشن چلاتی ہیں جو خاص طور پر خواتین کی تعلیم، صحت اور ان کے حقوق سے متعلق پروگرام نشر کرنے کے علاوہ انھیں درپیش مسائل کو بھی اجاگر کرتا ہے۔
گزشتہ سال ستمبر میں طالبان نے اس شہر پر چڑھائی کی اور کچھ دنوں کے لیے یہاں قبضہ کر لیا جسے سکیورٹی فورسز نے شدید مزاحمت کے باوجود واگزار کروا لیا تھا۔
لیکن اس تنازع میں زرغونہ کے ریڈیو اسٹیشن کو بھی نقصان پہنچا اور اس کی نشریات بند ہو گئیں۔
زرغونہ کہتی ہیں کہ طالبان کے حملے کے بعد شہر میں خواتین کے لیے صورتحال بہت گمبھیر ہوگئی کیونکہ ان کے بقول شدت پسند ایسی خواتین کو خاص طور پر تلاش کرتے پھر رہے تھے جو کسی نہ کسی روزگار سے وابستہ تھیں۔
وہ کہتی ہیں کہ شدت پسندوں نے ان کے ریڈیو اسٹیشن کو بھی تباہ کر دیا تھا لیکن بدھ کو خواتین کے عالمی دن کے موقع پر اقوام متحدہ کے ادارہ برائے ترقی "یو این ڈی پی" کے تعاون سے اس ریڈیو نے دوبارہ نشریات کا آغاز کردیا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں زرغونہ کا کہنا تھا کہ "ریڈیو کی بندش سے خواتین کے لیے پروگرام پیش نہیں کیے جا سکے لیکن اب ان کے پاس موقع ہے کہ وہ یہ آواز دوبارہ لوگوں تک پہنچائیں، ان کے لیے شعور و آگہی سے متعلق پروگرام ترتیب دیں۔"
یو این ڈی پی کے افغانستان میں ترجمان فرہاد زلمے کہتے ہیں کہ ریڈیو ایک بہت اہم اور طاقتور ذریعہ ابلاغ ہے اور خاص طور پر افغانستان میں خواتین کی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے اس کا کردار کسی طور بھی کم نہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ریڈیو کی رسائی تقریباً سب تک ہوتی ہے اور لوگوں خصوصاً خواتین کی بڑی تعداد اس سے مستفید ہوتی ہے۔
"دیہی علاقوں میں خواتین ان پڑھ ہیں تو ریڈیو ایک ایسا ذریعہ ہے جسے ساری خواتین سن کر سمجھ سکتیں ہیں۔۔۔یہ خواتین کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ وہ اسکول جائیں، انتخابات میں کردار ادا کریں، ووٹ ڈالیں، تو ریڈیو سے بہت فائدہ ہوا ہے حالیہ برسوں میں افغانستان میں۔"
فرہاد کہتے ہیں کہ ان کا ادارہ چاہتا ہے کہ اس ریڈیو کے ذریعے خواتین کی آواز نہ صرف مقامی سطح پر حکام تک پہنچے بلکہ بین الاقوامی دنیا میں بھی اسے سنا جائے۔