بھارت: کیا راہل گاندھی سے تفتیش نے کانگریس میں نئی جان ڈال دی ہے؟

بھارت میں حزبِ اختلاف کی جماعت انڈین نیشنل کانگریس کے رہنما راہل گاندھی کو تفتیشی ادارے کی جانب سے تحقیقات کے لیے بلانے کے معاملے پر پارٹی کارکن سراپا احتجاج ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس معاملے نے کانگریس میں نئی جان ڈال دی ہے اور اس کی سینئر قیادت بھی اب متحرک ہے۔

راہل گاندھی کے خلاف تحقیقات منی لانڈرنگ اور غیر ملکی زرِ مبادلہ قوانین کی خلاف ورزی کی تحقیقات کرنے والے مرکزی ادارے انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) کر رہا ہے۔ اُن پر نیشنل ہیرالڈ بدعنوانی کیس میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔

ای ڈی نے 13 جون سے راہل گاندھی سے بیانات لینے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ ای ڈی کے اہل کاروں نے انہیں جمعے کو پھر طلب کیا تھا لیکن ان کی اس درخواست پر کہ انہیں اپنی بیمار والدہ کے پاس جو کہ اسپتال میں داخل ہیں زیادہ وقت گزارنے دیں، اتوار تک مہلت دے دی گئی۔ اب پیر کو پھر ان سے بیانات لیے جائیں گے۔

بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رہنما سبرامنین سوامی نے 2013 میں دہلی کی ایک عدالت میں درخواست دائر کرکے یہ الزام عائد کیا تھا کہ راہل گاندھی کی نجی تنظیم ’ینگ انڈیا لمٹیڈ‘ نے کانگریس پارٹی کے اخبار ’نیشنل ہیرالڈ‘ کو حاصل کرنے میں فنڈز میں بدعنوانی کی ہے۔انہوں نے وزارتِ خزانہ میں کانگریس رہنماؤں کی جانب سے مبینہ ٹیکس چوری کی شکایت بھی کی تھی۔

سبرامنین سوامی کے الزام کے مطابق اس معاملے میں کروڑوں روپے کی بدعنوانی کی گئی۔ بتایا جاتا ہے کہ اے جے ایل کے پاس 2000 کروڑ روپے کی املاک ہیں۔

راہل گاندھی نے الزامات کی تردید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ینگ انڈیا لمٹیڈ‘ ایک عیر منافع بخش کمپنی ہے جس کی وجہ سے اس کے شیئر ہولڈرز کو کوئی مالی آمدن نہیں ہوتی۔ لہٰذا بدعنوانی کا الزام غلط ہے۔

ان کی والدہ اور کانگریس پارٹی کی صدر سونیا گاندھی کرونا میں مبتلا ہونے کی وجہ سے دہلی کے سرگنگا رام اسپتال میں داخل ہیں۔ وہ کرونا کے بعد پیدا ہونے والی مختلف پیچیدگیوں سے دوچار ہیں۔

راہل گاندھی سے ای ڈی کی تفتیش کے خلاف جس طرح کانگریس کے چھوٹے بڑے رہنما اور کارکن سڑکوں پر آ کر احتجاج کر رہے ہیں اور جگہ جگہ پولیس سے ان کا ٹکراؤ ہو رہا ہے، اسے بالخصوص سیاسی مبصرین دلچسپی سے دیکھ رہے ہیں۔

ان کا خیال ہے کہ مذکورہ معاملے میں مالی بدعنوانی ہوئی ہے یا نہیں اس کا فیصلہ تو تفتیش اور عدالتی کارروائی کے بعد ہوگا لیکن پارٹی رہنماؤں اور کارکنوں کے اس جارحانہ احتجاج سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پارٹی میں جان پڑ سکتی ہے۔ اُن کے بقول اب کانگریس کو یہ احساس ہونے لگا ہے کہ اسے اصل اپوزیشن کا کردار ہر حال میں ادا کرنا چاہیے۔


سینئر تجزیہ کار اور 'رورل وائس ڈاٹ نیٹ' کے چیف ایڈیٹر ہرویر سنگھ کہتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ قومی سطح پر بی جے پی کی سیاسی حریف کانگریس پارٹی ہے اور راہل گاندھی کانگریس کے قائد ہیں۔ راہل وزیر اعظم کے فیصلوں پر جارحانہ انداز میں نکتہ چینی کرتے ہیں۔ اس لیے ممکن ہے کہ اس ا قدام کے پیچھے حکومت کا کوئی بڑا سیاسی مقصد ہو۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اُن کا کہنا تھا کہ جہاں تک نیشنل ہیرالڈ کیس کی بات ہے تو اس سلسلے میں جس تیزی سے حکومت کام کر رہی ہے اس سے سوالات اُٹھتے ہیں۔ اگر یہ قدم کسی سیاسی مقصد کے تحت اٹھایا گیا ہے تو وہ مقصد یہی ہو سکتا ہے کہ اپوزیشن لیڈر کو قانونی گرفت میں لیا جائے۔

سینئر تجزیہ کار قربان علی اس سے اتفاق کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ بات بالکل واضح ہے کہ موجودہ حکومت اختلافِ رائے کو برداشت نہیں کرتی۔ وزیرِ اعظم نریندر مودی نے پہلے ہی کہا تھا کہ وہ کانگریس سے پاک ملک بنانا چاہتے ہیں۔ اس لیے ممکن ہے کہ سیاسی وجوہات سے راہل گاندھی سے تفتیش کی جا رہی ہو۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اُن کا کہنا تھا کہ ممکن ہے کہ نیشنل ہیرالڈ کیس میں راہل اور سونیا گاندھی سے کچھ غلطیاں ہوئی ہوں۔ لیکن یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ حکومتیں مرکزی ایجنسیوں کا استعمال اپنے سیاسی حریفوں کو سبق سکھانے کے لیے کرتی ہیں۔ یہ حکومت ان کا زیادہ استعمال کر رہی ہے۔

حکومت اس الزام کی تردید کرتی ہے۔ اس کا مؤقف یہ ہے کہ ای ڈی اپنے طور پر کام کر رہا ہے اور اگر اسے مذکورہ معاملے میں بدعنوانی کا شبہ ہے تو اسے اپنا کام کرنا چاہیے۔ اگر بدعنوانی نہیں ہوئی ہے تو معاملہ ختم ہو جائے گا۔


تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت اسی وقت عوام میں مقبول ہوتی ہے جب وہ عوامی مسائل پر تحریک چلائے۔ اگر وہ ڈرائنگ روم کی سیاست کرنے لگے جیسا کہ کانگریس پر الزام عائد ہوتا ہے تو اس پارٹی کی عوامی بنیا دکبھی مضبوط نہیں ہو سکتی۔

ہرویر سنگھ کہتے ہیں کہ کانگریس میں دو قسم کے سیاست دان ہیں۔ ایک وہ جو ڈرائنگ روم کی سیاست کرتے ہیں خاص طور پر اس کے راجیہ سبھا ارکان، دوسرے وہ جو سڑکوں پر آ کر عوامی مسائل اٹھانے میں یقین رکھتے ہیں۔ لیکن بہرحال یہ پہلی بار دیکھا گیا ہے کہ پی چدمبرم جیسے معمر سیاست دان بھی متحرک ہو گئے ہیں۔

خیال رہے کہ پی چدمبرم سابق مرکزی وزیر داخلہ اور سپریم کورٹ کے سینئر وکیل ہیں۔ احتجاج کے دوران پولیس سے ان کا ٹکراؤ ہوا اور ان کا چشمہ زمین پر گر گیا۔ کانگریس کے مطابق ان کی پسلی میں ہیئر لائن فریکچر بھی ہو گیا ہے۔

اسی طرح جب جمعرات کو دہلی میں کانگریسی کارکنوں نے لیفٹننٹ گورنر کے دفتر کا محاصرہ کرنے کی کوشش کی تو پولیس سے ان کا تصادم ہوا اور دہلی کانگریس کے صدر انل چودھری کا کندھا اکھڑ گیا، وہ اسپتال میں داخل ہیں۔

کانگریس رہنماؤں کا مختلف ریاستوں میں احتجاج

تمل ناڈو سے کانگریس کی خاتون رکن پارلیمنٹ جیوتی مانی کا الزام ہے کہ دہلی میں احتجاج کے دوران پولیس نے ان کا کرتا پھاڑ دیا۔ ان لوگوں کو زبردستی بس میں بٹھا دیا گیا اور مانگنے پر پانی بھی نہیں دیا گیا۔ سینئر کانگریس رہنما ششی تھرور نے اس واقعہ کی ویڈیو ٹویٹ کرکے اس کی مذمت کی ہے۔

تیلنگانہ کانگریس کی رہنما اور سابق رُکن پارلیمنٹ رینوکا چودھری نے حیدرآباد میں احتجاج کے دوران ایک پولیس عہدے دار کا کالر پکڑ لیا۔ بعد میں انہوں نے کہا کہ تصادم کے دوران ان کا توازن بگڑ گیا تھا، وہ گر رہی تھیں لہٰذا انہوں نے پولیس افسر کا کالر پکڑ لیا۔ تاہم انہوں نے اس پر معافی بھی مانگی۔

پولیس نے کانگریس کے کئی وزرائے اعلیٰ اور ارکان پارلیمنٹ کو حراست میں لیا اور گھنٹوں تک تھانوں میں بٹھائے رکھا۔ دہلی کے علاوہ دیگر ریاستوں میں بھی کانگریسی کارکن گورنرز کے دفاتر کا گھیراؤ کر رہے ہیں۔

ہرویر سنگھ کے مطابق جب کوئی سیاسی پارٹی کسی مسئلے پر سڑکوں پر آتی ہے تو اس کا اسے فائدہ ہوتا ہے۔ جس طرح کانگریس رہنما اور کارکن پورے ملک میں سڑکوں پر آئے ہیں ایسا کئی برس کے بعد دیکھا جا رہا ہے۔


تجزیہ کار اشوک وانکھیڈے پارٹی میں نئی جان پڑنے کی بات کی تائید کرتے ہیں تاہم یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر کانگریس چاہتی ہے کہ 2024 کے پارلیمانی انتخابات میں اس کو زیادہ شرمندگی نہ اٹھانا پڑے تو اسے اپنا طرزِ سیاست بدلنا ہو گا۔ لہذٰا ٹویٹ اور پریس کانفرنسوں پر انحصار کرنے کے بجائے تحریکوں اور ریلیوں کا انعقاد کرنا ہوگا۔

ان کے خیال میں اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اپنی اعلیٰ قیادت کے لیے ہی سہی کانگریسی سڑکوں پر تو آئے۔ لیکن کوئی تعجب نہیں کہ اس معاملے کے ٹھنڈا پڑ جانے کے بعد کانگریسی کارکنوں کا جوش بھی ٹھنڈا پڑ جائے۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ کانگریسی کارکن جس جارحانہ موڈ میں ہیں اس سے ایسا نہیں لگا کہ آنے والے دنوں میں یہ معاملہ ٹھنڈا ہوگا۔ کانگریس کی سرگرمیوں میں مزید اضافے کا امکان ہے۔

تاہم دہلی کے تجزیہ کاروں کا یہ بھی خیال ہے کہ کانگریس گزشتہ آٹھ برسوں سے خاموشی تھی۔ اس دوران حکومت کے بہت سے فیصلوں پر عوامی اضطراب نظر آیا لیکن کانگریس نے کسی بھی عوامی مسئلے پر کوئی تحریک نہیں چلائی۔ لیکن اب جب کہ اس کی اعلیٰ قیادت کے خلاف کارروائی ہو رہی ہے تو پوری پارٹی سڑک پر آ گئی ہے۔

قربان علی کہتے ہیں کہ اس احتجاج سے یہ تاثر پیدا ہو رہا ہے کہ اگر پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے خلاف کارروائی ہوتی ہے تو کانگریسی احتجاج کرتے ہیں۔

بیشتر تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ حکومت تفتیش کے بہانے راہل گاندھی کو پریشان کرنا چاہتی ہے۔ انہوں نے راہل کی گرفتاری کے امکان کو مسترد کر دیا۔ ان کا خیال ہے کہ اس صورت میں کانگریس کو بڑا سیاسی فائدہ ہوگا اور حکومت بھی یہ سمجھتی ہے کہ اس صورت میں راہل عوام کے درمیان خود کو مظلوم کی طرح پیش کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے جو کہ حکومت بالکل نہیں چاہتی۔