ترقی پذیر ملکوں کو ماحولیاتی تبدیلیوں سے نبٹنے میں مدد فراہم کرنے کی غرض سے قائم کردہ 'گرین کلائمیٹ فنڈ' کے بورڈ کا پہلا اجلاس رواں ہفتے جنیوا میں ہونے جارہا ہے۔
ترقی پذیر ملکوں کو ماحولیاتی تبدیلیوں سے نبٹنے میں مدد فراہم کرنے کی غرض سے قائم کردہ 'گرین کلائمیٹ فنڈ' کے بورڈ کا پہلا اجلاس رواں ہفتے جنیوا میں ہونے جارہا ہے۔
اس فنڈ کا قیام جنوبی افریقہ کے شہر ڈربن میں 2011ء میں ہونے والی عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں عمل میں آیا تھا اور اس کے ذریعے ماحولیاتی تبدیلیوں کے مقابلے کے لیے اربوں ڈالر اکٹھے کیے جانے ہیں۔
امریکی امدادی ادارے 'ایکشن ایڈ یو ایس اے' سے منسلک سینئر پالیسی تجزیہ کار برینڈن وو کا کہنا ہے کہ فنڈ کے پہلے اجلاس کا ایک عرصے سے انتظار ہورہا تھا۔
ان کے بقول یہ اجلاس ایک ایسے وقت میں ہورہا ہے جب تنہا امریکہ ہی ماحولیاتی تبدیلیوں کے بہت سے اثرات کا بیک وقت سامنا کر رہا ہے۔
امریکہ میں اس وقت بد ترین خشک سالی ہے جس کے فصلوں پر تباہ کن اثر ات مرتب ہوئے ہیں اور خوراک کی قیمتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ سخت گرم موسم کے باعث امریکی جنگلات میں آگ لگنے کے بھی کئی واقعات پیش آچکے ہیں۔
برینڈن وو کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیاں ترقی پذیر اور غریب ممالک کو امریکہ سے کہیں زیادہ متاثر کر رہی ہیں اور وہاں چھوٹے کسان بہت مشکل میں ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ خشک سالی سے جہاں امریکہ جیسے امیر ملکوں میں خوراک کی قیمتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے وہیں یہ خشک سالی غریب ممالک میں قحط جیسی صورتِ حال کو جنم دے سکتی ہے۔
برینڈن وو کے مطابق دنیا کے کئی ممالک سیلابوں کے نشانے پر ہیں جو انہی ماحولیاتی تبدیلیوں کا نتیجہ ہیں۔ ان کے بقول گزشتہ سال صرف تھائی لینڈ کےدارالحکومت بینکاک میں آنے والے سیلاب کے نتیجے میں اقوامِ متحدہ کے اندازے کے مطابق 40 ارب ڈالرز کا نقصان ہوا تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ ان آفات سے انسانی آبادیوں اور زندگیوں کو پہنچنے والا نقصان مالی نقصان سے سوا ہے۔
برینڈن وو 'گرین کلائمیٹ فنڈ' کو ایک ایسا ذریعہ قرار دیتے ہیں جس کے نتیجے میں ترقی پذیر ممالک کو ماحولیاتی تبدیلیوں کے مقابلے کے لیے وسائل میسر آسکیں گے۔ فنڈ کے منتظمین کو امید ہے کہ وہ 2020ء کے اختتام تک اس مقصد کے لیے 100 ارب ڈالرز کی رقم اکٹھی کرلیں گے۔
فنڈ کا بورڈ 24 ارکان پر مشتمل ہے جس میں ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کو یکساں نمائندگی دی گئی ہے۔ ماہرین کو امید ہے کہ یہ فنڈ اپنی راہ میں حائل تمام تر رکاوٹوں اور دشواریوں کے باوجود ماحولیاتی تبدیلیوں کے مقابلے اور ان کے اثرات کم کرنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔
اس فنڈ کا قیام جنوبی افریقہ کے شہر ڈربن میں 2011ء میں ہونے والی عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں عمل میں آیا تھا اور اس کے ذریعے ماحولیاتی تبدیلیوں کے مقابلے کے لیے اربوں ڈالر اکٹھے کیے جانے ہیں۔
امریکی امدادی ادارے 'ایکشن ایڈ یو ایس اے' سے منسلک سینئر پالیسی تجزیہ کار برینڈن وو کا کہنا ہے کہ فنڈ کے پہلے اجلاس کا ایک عرصے سے انتظار ہورہا تھا۔
ان کے بقول یہ اجلاس ایک ایسے وقت میں ہورہا ہے جب تنہا امریکہ ہی ماحولیاتی تبدیلیوں کے بہت سے اثرات کا بیک وقت سامنا کر رہا ہے۔
امریکہ میں اس وقت بد ترین خشک سالی ہے جس کے فصلوں پر تباہ کن اثر ات مرتب ہوئے ہیں اور خوراک کی قیمتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ سخت گرم موسم کے باعث امریکی جنگلات میں آگ لگنے کے بھی کئی واقعات پیش آچکے ہیں۔
برینڈن وو کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیاں ترقی پذیر اور غریب ممالک کو امریکہ سے کہیں زیادہ متاثر کر رہی ہیں اور وہاں چھوٹے کسان بہت مشکل میں ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ خشک سالی سے جہاں امریکہ جیسے امیر ملکوں میں خوراک کی قیمتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے وہیں یہ خشک سالی غریب ممالک میں قحط جیسی صورتِ حال کو جنم دے سکتی ہے۔
برینڈن وو کے مطابق دنیا کے کئی ممالک سیلابوں کے نشانے پر ہیں جو انہی ماحولیاتی تبدیلیوں کا نتیجہ ہیں۔ ان کے بقول گزشتہ سال صرف تھائی لینڈ کےدارالحکومت بینکاک میں آنے والے سیلاب کے نتیجے میں اقوامِ متحدہ کے اندازے کے مطابق 40 ارب ڈالرز کا نقصان ہوا تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ ان آفات سے انسانی آبادیوں اور زندگیوں کو پہنچنے والا نقصان مالی نقصان سے سوا ہے۔
برینڈن وو 'گرین کلائمیٹ فنڈ' کو ایک ایسا ذریعہ قرار دیتے ہیں جس کے نتیجے میں ترقی پذیر ممالک کو ماحولیاتی تبدیلیوں کے مقابلے کے لیے وسائل میسر آسکیں گے۔ فنڈ کے منتظمین کو امید ہے کہ وہ 2020ء کے اختتام تک اس مقصد کے لیے 100 ارب ڈالرز کی رقم اکٹھی کرلیں گے۔
فنڈ کا بورڈ 24 ارکان پر مشتمل ہے جس میں ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کو یکساں نمائندگی دی گئی ہے۔ ماہرین کو امید ہے کہ یہ فنڈ اپنی راہ میں حائل تمام تر رکاوٹوں اور دشواریوں کے باوجود ماحولیاتی تبدیلیوں کے مقابلے اور ان کے اثرات کم کرنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔