رمضان گزر گیا ۔۔اور تیزمیٹھی چائے و نسبتاًزیادہ نمک والے ۔۔مگر کڑک پراٹھے کے ساتھ ناشتہ کرنے کے دن پھرلوٹ آئے۔کراچی میں کوئٹہ ، پشین اور چمن ولورالائی کے نام سے قائم چائے کے عوامی ہوٹلوں میں گاہکوں کی بہاریں بھی اب جوبن پر ہیں۔ چورا چائے کا ذائقہ ،نیلی ،پیلی ،ہری، اودئی اور کاسنی رنگوں کی چینکوں سے پھوٹتی گرما گرم بھاپ، چینی کی آمیزیش سے سجی دودھ کی موٹی بالائی اور انڈا آملیٹ۔۔۔جو رمضان کی آمد کے ساتھ ہی دکان کے آہنی شٹرز کے پیچھے چھپ گیا تھا،وہ سب کچھ۔۔ واپس آگیا ہے۔
عام دنوں میں ان ہوٹلوں پر آکر کھانے والوں کا رش لگنا معمول ہے تو اتوار یا کسی اور چھٹی والے دن پارسل لینے والوں کی بھی یہاں لائنیں لگ جاتی ہیں۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ تیز آنچ پر سکے ہوئے سرخ اور کڑک پراٹھوں کا مزہ ہی کچھ اور ہے۔ پھر چائے کا جو مزہ ان ہوٹلوں پرآتا ہے وہ مزہ گھر کی چائے میں بھی نہیں۔ دس روپے کا پراٹھا اور دس روپے کی چائے۔۔۔اس سے سستا ناشتہ بھلا اور کیا ہوگا؟
مگرحاجی شمروز خان ، جن کی کنپٹیوں کے بال سفید ہوچلے ہیں اور چہرے پر بڑھتی عمر کی جھریوں نے گھر کرلیا ہے ، ان کا کہنا ہے: ان ہوٹلوں نے بہت سے اتار چڑھاوٴ دیکھے ہیں۔ دس بیس سال پہلے کی بات نہیں، چند برس پہلے ہی پانچ روپے کا پراٹھا اور ساڑھے تین روپے کی سادہ چائے آتی تھی، پانچ روپے میں تو دودھ پتی آجاتی تھی مگر جب سے گھی اور چینی نے "ریٹ پکڑے" ہیں ، چائے پراٹھے کا ناشتہ بیس روپے کا ہوگیا ہے۔ "
حاجی شمروز خان ٹھیک ہی کہتے ہیں۔ مہنگائی کا مقابلہ کرتے ہوئے چائے اور پراٹھے کی کم قیمت رکھنے کی ہوٹل مالکان نے اپنی سی بڑی کوشش کی مگر سب بے سود رہی۔پہلے پہل ان ہوٹلوں میں تین ساڑھے تین انچ قطر کی گول پیالی میں چائے ملا کرتی تھی،مہنگائی ہوئی تو خریدار کو مطمئن کرنے کے لئے گول پیالی کی جگہ چھوٹے کپ اور پرچ استعمال کئے جانے لگے ۔ پھر بھی مہنگائی کی رفتار نہ رکی تو بڑا کپ اور پرچ عام ہوگیا ۔
بیس روپے کا چائے پراٹھا بھی سب لوگ نہیں کھا سکتے اس لئے انہوں نے چند پیسوں کی بچت کی خاطر چائے کپ پرچ میں منگوانے کے بجائے چھوٹی چینک میں منگوانا شروع کردی ہے۔ چینک میں کپ کے مقابلے میں زیادہ چائے آتی ہے پھر چینک نسبتاً سستی پڑتی ہے کیوں کہ چینک کی چائے ایک کے بجائے دو افراد کے لئے کافی ہوتی ہے۔ حاجی شمروز خان کا کہنا ہے"جیسے جیسے مہنگائی بڑھتی ہے غریب آدمی گزارا کرنے کے لئے مجبوراً پیٹ کاٹنے کا کوئی نہ کوئی طریقہ نکال ہی لیتا ہے۔ کپ کے بجائے چینک میں چائے منگوانے سے پانچ روپے کی بچت ہوتی ہے۔ مزدوروں، خونچہ لگانے والوں اور اسی طرح کے نہایت غریب لوگوں کو اسی طرح پیٹ کاٹ کاٹ کر گزر بس کرنی پڑتی ہے کیوں کہ مہنگائی کے مقابلے میں آمدنی کم ہے۔"
پشاور کے روایتی قہوہ خانوں سے ملتی جلتی شکل کے یہ ہوٹلز قریب قریب کراچی کی ہر آبادی اور ہر بستی میں موجود ہیں۔ خصوصاً بڑے بس اسٹاپس، ریلوے اسٹیشن، بازاروں، کارخانوں، فیکٹریوں، زیر تعمیر علاقوں، نئی آبادیوں ۔۔۔یہاں تک کہ کچی آبادیوں میں بھی یہ ہوٹلز عام ہیں۔ کچھ ہوٹلز میں تو چائے کے ساتھ ساتھ دوپہر اور رات کا کھانا بھی ملتا ہے۔ دوسرے ہوٹلوں کے مقابلے میں یہاں کے کھانے کم قیمت ہوتے ہیں، اس کا اندازہ یقیناآپ خود بھی لگا چکے ہوں گے۔
اکثر ہوٹلز رات گئے تک کھلے رہتے ہیں اس لئے یہ عام لوگوں کے لئے شام سے رات تک کی تفریح کا ساماں بھی ہیں۔بعض ہوٹلوں کے آگے بڑی تعداد میں بچھی چار پائیوں پر ٹانگ پر ٹانگ پسارے ، سگریٹ کے دھویں سے مرغولے بناتے، محدود آمدنی کا گلا شکوہ، خاندانی اونچ نیچ کا تذکرہ اور یار دوستوں سے خوش گپپیا ں کرتے لوگوں کے غول دن بھر کی تھکن اسی طرح اتارتے ہیں۔ پھر یہ ایسی تفریح بھی توہے جو کم خرچ مگر بالانشیں ہے۔ اسی "بالا نشیں" کی بدولت کراچی کے قدیم ایرانی ہوٹلز ختم ہوگئے ورنہ اس سے قبل چائے کے ایرانی ہوٹلز کراچی کے باسیوں کی تفریح گاہ ہوا کرتے تھے۔
جب سے کراچی میں پڑوسی ملک کے چینلز دیکھنے کا رواج عام ہوا ہے ،ان ہوٹلز میں بھی کیبل ٹی وی لگ گئے ہیں۔ ان ہوٹلوں کے بعض مستقل گاہکوں کا کہنا ہے کہ کیبل ٹی وی اور فلموں سے تفریح کا مزہ دوبالا ہوا ہے، کیوں کہ بیشتر گھروں میں ٹی وی نہیں ، پھر ہے بھی تو یہاں بیٹھ کر جو مزہ ہے وہ گھر میں کہاں ۔۔۔!پھر ٹی وی کی بدولت ہوٹلوں کی آمدنی بھی بڑھی ہے اور گاہکوں کی تعداد بھی۔
شہرکے کئی ہوٹلز تو باقاعدہ پورے شہر میں مشہور ہیں۔ گلبرگ کا کیفے پیالہ اور اسی کے برابر میں بنا سپر کیفے پیالہ۔۔دونوں شہرت میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ۔ دن ہو یا رات ان ہوٹلوں پر چائے پراٹھا ہر وقت موجود رہتا ہے۔ ہوسکتا ہے پہلے صرف صبح کے وقت چائے پراٹھا ملتا ہو مگر اب جس وقت چاہیں چائے پراٹھا مل جائے گا۔
ان ہوٹلوں کے تمام مالکان خیبر پختونخواہ سے تعلق رکھتے ہیں یا بلوچستان سے۔ جس وقت آپ کو ان ہوٹلوں پر ٹی وی چلتا دکھائی نہ دے ، تو ٹیپ بجتا سنائی ضرور دے گا۔ کچھ گاہک جو کراچی میں رہتے ہوئے بھی اپنے "وطن" یعنی آبائی علاقوں کو نہیں بھولے یا جنہیں ماں باپ ، بہن بھائی ، بیوی بچوں، یار دوست، بچپن اور لڑکپن کی یاد یں ستاتی ہیں وہ ان ہوٹلوں پر آکر پشتو یا بلوچی موسیقی ضرور سنتے اور اپنوں کی یادوں کا غم بھلانے کے کوشش ضرور کرتے ہیں۔گویا یہ ہوٹلز ان کے درد کا درماں بھی ہیں۔
آپسی جھگڑے ہوں تو بھی انہی ہوٹلوں پر صلح صفائی ہوتی نظر آئے گی۔ کچھ لوگ رشتے طے کرنے اور کرانے کے لئے بھی ابتدائی بات یہیں کرتے نظر آئیں گے۔ ادھار لینے اور دینے کے لئے یہیں میٹنگز ہوتی ہیں۔ ۔۔۔اور کبھی کبھار بات مزید بگڑ جائے تو ہاتھا پائی بھی انہی ہوٹلوں میں ہوتی نظر آتی ہے۔
۔۔۔گویا جس طرح تمام مسائل، ہنگاموں اور دھما چوکٹریوں کے ساتھ زندگی آگے کی جانب گامزن ہے اسی طرح یہ ہوٹلز بھی اپنی تمام تر خصوصیات اور ہر طرح کی اونچ نیچ کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں کیوں کہ زندگی کے ہنگامے ہی تو ان ہوٹلوں کی دھڑکن ہیں۔