انڈونیشیا کے قریب کشتی ڈوبنے سے پہلے روہنگیا لڑکیوں کےساتھ عملے کی زیادتی

21 مارچ 2024 کو انڈونیشیا کے ساحل قریب الٹنے والی کشتی کے کچھ روہنگیا مسافر مدد کے انتظار میں کھڑے ہیں۔ کشتی پر تقریباً 140 افراد سوار تھے جن میں سے 69 ڈوب گئے تھے۔

  • 140 روہنگیا پناہ گزینوں کو لے جانے والی کشتی 21 مارچ کو انڈونیشیا کے ساحل کے قریب ڈوب گئی تھی۔
  • اس پر سوار 69 مسافر ڈوب گئے۔ زندہ بچ جانے والوں میں 12 سالہ لڑکی بھی شامل تھی
  • اس کشتی پر 18 خواتین اور لڑکیاں بھی تھیں۔ جن میں 12 سالہ لڑکی شادی کے لیے انڈونیشیا کے راستے ملائیشیا جا رہی تھی۔
  • کیپٹن اور عملے کے ارکان نے شراب اور چرس کے نشے میں ان کے ساتھ زیادتی کی۔
  • انڈونیشیا کی پولیس نے عملے کے تین ارکان کو گرفتار کیا لیکن کیپٹن اور دوسرے افراد بیرون ملک فرار ہو گئے۔

ایک بارہ سالہ روہنگیا لڑکی اس کشتی پر سوار تھی، جو بنگلہ دیش سے تقریباً 140 روہنگیا پناہ گزینوں کو غیر قانونی طور پر انڈونیشیا لے جا رہی تھی۔ لیکن 12 سالہ لڑکی کی منزل ملائیشیا تھی جہاں اسے ایک ایسے شخص کی بیوی بننا تھا جسے اس نے کبھی نہیں دیکھا تھا اور نہ ہی اسے یہ معلوم تھا کہ وہ کون ہے۔

یہ کشتی انڈونیشیا کے ساحل کے قریب ڈوب گئی تھی اور اس پر سوار 69 مسافر ڈوب گئے۔ زندہ بچ جانے والوں میں 12 سالہ لڑکی بھی شامل تھی۔

اس کی کہانی کشتی الٹنے کے واقعہ سے بھی کہیں زیادہ دہلا دینے والی ہے کہ کشتی کے کیپٹن اور عملے کے دوسرے چند ارکان نے اسے اور تین دوسری لڑکیوں کو مسلسل زیادتی کا نشانہ بنایا، مارا پیٹا اور دھمکیاں دیں۔

لڑکی کی شناخت پوشیدہ رکھنے کے لیے ایسوسی ایٹڈ پریس نے اس کے نام کا صرف پہلا حرف ’ن‘ استعمال کیا ہے۔

’ن‘ نے بتایا کہ کشتی پر 140 روہنگیا سوار تھے اور انڈونیشیا کے ساحل کے قریب کشتی کے ڈوبنے کا واقعہ سفر کی تیسری رات پیش آیا۔

اس نے بتایا کہ وہ میانمار میں فوجیوں کے ظلم و ستم سے اپنی جان بچانے کے لیے اپنے خاندان کے ساتھ بنگلہ دیش چلی گئی تھی ۔ وہاں کئی روہنگیا، اپنی بیٹیوں کو شادی کے لیے چوری چھپے ملائیشیا بھیج رہے تھے۔ ’ن‘ کے والدین نے اسے بھی غیر قانونی طور پر ملائیشیا بھیجنے کے لیے انسانی اسمگلروں کی کشتی میں سوار کر دیا۔

ریسکیو ورکرز سمندرمیں ڈوب جانے والے بدقسمت افراد کو تلاش کر رہے ہیں۔ کشتی ڈوبنے کے اگلے روز انہیں 12 عورتوں اور تین بچوں کی لاشیں ملیں تھیں۔ 23 مارچ 2024

اس نے بتایا کہ وہ اپنے والدین کے بغیر اکیلی ہی نامعلوم منزل کی جانب جا رہی تھی۔

اس سفر کا تاریک حصہ اس وقت شروع ہوا جب پناہ گزینوں کو بنگلہ دیش سے لانے والی کشتی نے، انڈونیشیا کے ایک چھوٹے جہاز کے عملے کے حوالے کر دیا جس نے انہیں انڈونیشیا کے ساحل پر اتارنا تھا۔ لیکن ابھی کئی راتوں کا سفر باقی تھا۔

انڈونیشی کپتان اور عملے کے افراد نے مردوں اور عورتوں کو الگ الگ کر دیا۔ مردوں کو سامان رکھنے کے حصے میں بھیج دیا گیا۔ ایک روہنگیا مسافر محمد امین نے بتایا کہ جس کسی نے بھی حکم ماننے سے انکار کیا، اسے مارا پیٹا گیا۔ انہوں نے دھمکی دی کہ ان کے پاس ہتھیار ہیں اور وہ انکار کرنے والے کو سبق سکھائیں گے۔

’ن‘ نے بتایا کہ اسے اور چار دوسری لڑکیوں اور عورتوں کو کیپٹن اور اس کے عملے کے چھ میں سے پانچ ارکان نے زیادتی کا نشانہ بنایا۔

’ن‘ کے مطابق کیپٹن اور اس کے ساتھی رات بھر شراب اور چرس پیتے رہے اور پھر کیپٹن نے مطالبہ کیا کہ نئی لڑکیاں اس کے بیڈ روم میں لائی جائیں۔ وہ بری طرح نشے میں دھت تھا اور دھمکیاں دے رہا تھا۔ اس نے کہا کہ اگر اس کی بات نہ مانی گئی تو وہ کشتی کو ڈبو دے گا۔

سمندر سے ملنے والی لاشیں ساحل پر منتقل کی جا رہی ہیں۔ 23 مارچ 2024

ایک اور روہنگیا مسافر جنت اللہ نے اے پی کو بتایا کہ کیپٹن نے سخت غصے میں کشتی کے پتوار کو بڑے زور سے اپنے پاؤں سے گھمایا، جس سے کشتی کا توازن بگڑ کیا اور وہ ایک بڑی لہر میں پھنس کر ہچکولے کھانے لگی۔ مسافر مدد کے لئے چیخنے چلانے اور دعائیں مانگنے لگے۔

اسی دوران کشتی الٹ گئی اور بارہ سالہ بچی کسی طرح سے کئی دوسرے مسافروں کے ساتھ کشتی سے نکل کر اس کے اوپر چڑھنے میں کامیاب ہو گئی۔ اس کی تو جان بچ گئی لیکن اس کے ساتھ زیادتی کا نشانہ بننے والی تین دوسری لڑکیاں ڈوب گئیں۔

ایک اور مسافر نے بتایا کہ اس نے کیپٹن اور عملے کے تین ارکان کو تیر کر دور جاتے ہوئے دیکھا۔

جب صبح طلوع ہوئی تو ماہی گیروں کی ایک چھوٹی کشتی ان کے قریب آئی اور چھ مسافروں کو لے کر ساحل کی طرف چلی گئی۔

اسی دوران سمندری لہروں سے کشتی ہچکولے کھانے لگی اور توازن بگڑنے پر وہ دوبارہ الٹ گئی جس سے کئی اور مسافر ڈوب گئے۔

روہنگیا پناہ گزین ریسکیو ہونے کے بعد انڈونیشیا کی ایچے بندرگاہ کے ایک مرکز میں بیٹھے ہیں۔ 21 مارچ 2024

پھر انتظار میں رات گزر گئی اور آخرکار اگلے روز ریسکیو جہاز ان کی مدد کے لیے پہنچ گیا۔ ایچے بندرگاہ کے چیف ابن حارث الحسین نے بتایا کہ جیسے ہی انہیں کشتی کے ڈوبنے کی اطلاع ملی فوراً ریسکو جہاز روانہ کر دیا گیا۔

پناہ گزینوں کے عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ 12 خواتین اور 3 بچوں کی لاشیں سمندر سے مل گئی تھیں۔

2 اپریل کو پولیس نے بتایا کہ کشتی کے عملے کے تین ارکان کو گرفتار کر لیا گیا ہے جب کہ ایک چوتھے شخص کو بھی حراست میں لے لیا گیا ہے، جو کشتی پر موجود نہیں تھا۔

پولیس نے ان پر انسانی اسمگلنگ میں ملوث ہونے کی دفعات عائد کیں ہیں جن پر زیادہ سے زیادہ 15 سال قید کی سزا ہو سکتی ہے۔

پولیس عملے کے باقی ماندہ ارکان کو تلاش کر رہی ہے جن میں کیپٹن بھی شامل ہے جو ملائیشیا فرار ہو گیا تھا۔

پولیس نے ان پر مسافروں کو ہلاک کرنے کا الزام عائد نہیں کیا کیونکہ ان کا خیال ہے کہ کشتی کا ڈوبنا ایک حادثہ تھا۔ جب کہ ’ن‘ اور کئی دوسرے مسافروں کا کہنا ہے کہ وہ حادثہ نہیں تھا بلکہ وہ اذیت پسند کیپٹن کا جان بوجھ کر کیا جانے والا اقدام تھا۔

مارچ میں انڈونیشیا کے ساحل کے قریب کشتی الٹنے کے واقعہ میں زندہ بچ جانے والی خواتین میولابو کے ایک کیمپ میں بیٹھی ہیں۔ کشتی الٹنے سے پہلے کشتی میں سوار کئی خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ کیپٹن اور عملے کے ارکان نے زیادتی کی تھی۔4 اپریل 2024

’ن‘ نے اے پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ہم پر تشدد کیا، ہمارے ساتھ جانوروں جیسا برتاؤ کیا۔ ہم چاہتے ہیں کہ حکومت انہیں سزا دے۔

پولیس نے گرفتار افراد پر جنسی زیادتی کی دفعات نہیں لگائیں کیونکہ ان کے پاس کسی نے ایسی کوئی شکایت درج نہیں کرائی ۔ لیکن ’ن‘ کہتی ہیں کہ پولیس نے ہم سے کبھی اس بارے میں سوال ہی نہیں کیا۔

اے پی نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ بارہ سالہ بچی کو توقع ہے کہ وہ ایک روز ملائیشیا پہنچ سکے گی اور اس شخص سے ملے گی جو اسے اپنی دلہن بنانا چاہتا ہے۔

اس نے اپنی آنکھوں میں سپنے سجاتے ہوئے بتایا کہ پھر اس کی ز ندگی آزادیوں سے بھر جائے گی۔

جب کہ اس تصویر کا حقیقی رخ یہ ہے کہ ملائیشیا میں اکثر اوقات کم عمر روینگیا دلہنوں کی حیثیت جابر شوہروں کے لیے نوکرانیوں جیسی ہوتی ہے۔

(اس آرٹیکل کے لیے کچھ معلومات اے پی سے لی گئیں ہیں)