راولپنڈی: کرفیو ختم، مظاہروں کے بعد صورت حال کشیدہ

ضلعی انتظامیہ کے مطابق شہر میں دفعہ 144 کا نفاذ بدستور رہے گا جس کے تحت راولپنڈی میں کسی بھی طرح کے اجتماع پر پابندی ہو گی۔
پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے جڑواں شہر راولپنڈی میں پیر کی صبح کرفیو اُٹھا لیا گیا تاہم حکام کے مطابق شہر میں فوج بدستور موجود رہے گی۔

کرفیو کے خاتمے کے بعد راولپنڈی کے بعض علاقوں میں پیر کی صبح مشتعل مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے جس کے بعد صورت حال کشیدہ ہو گئی اور ضلعی انتظامیہ نے پولیس کے اضافی دستے تعینات کر دیئے۔

شہر کے بعض علاقوں میں دکانیں کھولی گئیں لیکن مشتعل افراد کے پتھراؤ کے بعد اُنھیں بند کر دیا گیا۔

کرفیو کے خاتمے کے اعلان کے باوجود راولپنڈی میں پیر کو تعلیمی ادارے بند رہے۔

گزشتہ جمعہ کو یوم عاشور کے ایک جلوس کے دوران فرقہ وارانہ تصادم کے بعد راولپنڈی میں کرفیو نافذ کر دیا گیا تھا۔ ضلعی انتظامیہ کے مطابق شہر میں دفعہ 144 کا نفاذ بدستور رہے گا جس کے تحت کسی بھی طرح کے اجتماع پر پابندی ہو گی۔

فرقہ وارانہ تصادم کا آغاز جمعہ کو اس وقت ہوا تھا جب عاشورہ کا جلوس راولپنڈی کے قدیم اور مصروف تجارتی علاقے راجہ بازار کے قریب سنی مسلک کی ایک مسجد کے سامنے سے گزر رہا تھا۔

تلخ کلامی کے بعد تصادم پہلے پتھراؤ اور پھر خودکار اسلحے کے استعمال میں بدل گیا، جھڑپ میں کم از کم 10 افراد ہلاک اور پچاس سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔

تصادم کے بعد مشتعل افراد نے کئی دکانوں کو آگ لگا دی اور صورت حال قابو سے باہر ہونے کے بعد کرفیو نافذ کر دیا گیا، جس سے راولپنڈی کے کئی گنجان آباد علاقوں میں لوگ گھروں محصور ہو کر رہ گئے تھے اور اطلاعات کے مطابق بعض کو خوراک کی قلت کا سامنا بھی کرنا پڑا۔



پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنا اللہ نے پیر کو راولپنڈی میں صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ تصادم کے دوران دوکانوں اور مدرسے کو پہنچنے والے نقصان کا تخمینہ لگانے کے لیے ایک کمیٹی بنا دی گئی ہے۔

’’نجی املاک کو پہنچنے والے نقصان کا بھی تخمینہ لگایا جا رہا ہے جس کے بعد حکومت اُس نقصان کی تلافی کرے گی۔‘‘

راولپنڈی کے واقعہ کی تحقیقات کے لیے لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس مامون رشید پر مشتمل ایک رکنی عدالتی کمیشن تشکیل دے دیا گیا ہے جب کہ رانا ثنا اللہ کے مطابق ایک اعلٰی عہدیدار نجم سعید کی سربراہی میں تین رکنی تحقیقاتی ٹیم بھی بنا دی ہے۔

’’یہ ٹیم حقائق جاننے کے لیے بنائی گئی ہے کہ کیا موقع کے اوپر ہر فرد جس کی ڈیوٹی تھی اُس نے اپنا کام صحیح طور پر سر انجام دیا اُس میں کمی ہوئی۔‘‘

مذہبی رہنماؤں اور حکام کے درمیان طویل ملاقات کے بعد ہلاک ہونے والوں میں سے تین افراد کی نمازہ جنازہ اتوار کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں ادا کر دی گئی تھی جس میں دینی جماعتوں کے رہنماؤں اور علمائے دین نے شرکت کی۔

حکام کے مطابق اب بھی نو زخمی افراد زیر علاج ہیں جن میں سے دو کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔