پاکستان میں خواتین پرگھریلو تشدد کی حوصلہ شکنی اور خواتین کےتحفظ کے لیے’خواتین دشمن روایات‘ نامی بل قومی اسمبلی سے منظور کیے جانےکو ناصرف پاکستان بلکہ بیرون ملک بسنے والے پاکستانیوں نے بھی سراہا ہے۔
امریکہ میں بسنےوالے پاکستانی نژاد افراد نےجہاں جبری شادی، ’ونی‘ اور’کاروکاری‘ جیسی فرسودہ روایات کے خلاف موٴثر قانون سازی کو ایک مثبت قدم قرار دیا ہے، وہیں انھوں نے اس امید کا اظہار بھی کیا کہ حکومت اور قانون نافذ کرنے والےادارے اس قانون پر جلد از جلدعمل درآمد کوبھی ممکن بنائیں گے۔
امریکی ریاست ورجینیا سے تعلق رکھنے والے ندیم احمد کا کہنا تھا کہ قانون بہت تاخیر سے آیا ہے، لیکن ’دیر آید درست آید‘ کی مصداق اچھی بات یہ ہے کہ قانون کو منظور کیا گیا ہے۔ لیکن ان کا کہنا تھا کہ ’ونی‘،http://www.youtube.com/embed/w2DqE62lrlM’کاروکاری‘ اور ’قرآن سے شادی‘ جیسی فرسودہ رسمیں جنوبی پنجاب اور سندھ کے بالائی علاقوں میں رائج ہیں، جہاں بنیادی مسئلہ تعلیم کی کمی ہے اور لوگوں کواُن کے حقوق کے بارے میں علم ہی نہیں۔ اِس لیے، اُنھیں نہیں پتا کہ کسی زیادتی کی صورت میں انھیں کیا کرنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان علاقوں میں اکثریت کا تعلق زمینداراورجاگیردار طبقے سے ہے جن کے ہاں خواتین کو وراثت سے محروم رکھنے کی روایات موجود ہیں۔ عام لوگوں سمیت ان علاقوں میں جاگیرداروں اور زمینداروں کو بھی اس قانون کے بارے میں آگاہ کرنےکی ضرورت ہے، تاکہ ایسی فرسودہ رسموں کوختم کرنےمیں اُن کی مدد بھی حاصل کی جاسکے۔
دعا شہزادی، ریاست ورجینیا کے شہر سپرنگ فیلڈ میں ایک ریستوارن میں کام کرتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انھیں یہاں آکر اندازہ ہوا کہ مغرب میں خواتین کےحقوق کے بارے میں قوانین کتنے سخت ہیں، جس کے باعث خواتین کو کتنی آسانیاں میسر ہیں۔ اور، اُن کے بقول، اگر پاکستان میں اب سخت قوانین نافذ ہو رہے ہیں تو یہ ایک بہت ہی اچھی بات ہے۔
اعجاز نا صر اور آغا رضا علی یہاں کاروبار کرتے ہیں۔ ان کے مطابق، یہ قانون مغرب میں پاکستان کے’امیج‘ کو بہترکرنےمیں مددگار ثابت ہوگا اور لوگوں کو بھی اس کا ساتھ دینا چاہیئے۔ ان کا کہنا تھا کہ نا صرف خواتین کے حقوق بلکہ انسانی حقوق کے حوالے سے بھی اس طرح کے قوانین نہایت اہم ہیں۔
واشنگٹن میں حقوق نسواں کی کارکن صابرہ قریشی کا کہنا تھا کہ اس قانون کے بننے سے یہ بات واضح ہوئی ہے کہ اب پاکستان میں بھی پرانی روایتوں کے خلاف قانونی اقدام کیے جارہے ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ لوگوں کا ردعمل بہت مثبت ہے اور اس کے اثرات بھی دوررس ہوں گے، لیکن اصل امتحان اس قانون پر عمل درآمد ہوگا۔
اُنھوں نے کہا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ پولیس ، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور عوام کو بھی اس بارے میں آگاہی فراہم کی جائے، خاص طور پر خواتین کو بتایا جائے کہ ان کے کیا حقوق ہیں اور ان کی حفاظت کے لیے کونسے قوانین موجود ہیں۔ اس کے علاوہ، انھوں نے کہا کہ قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ سے اس کی منظوری بھی ایک مشکل مرحلہ ثابت ہو سکتا ہے، کیونکہ، اس سےقبل پیش کیا جانے والا خواتین پر گھریلو تشدد کا بل ابھی سینیٹ سے منظوری حاصل کرنے کے مراحل طے نہیں کر پایا۔
اس حوالے سے، ان کا کہنا تھا کہ اس بات کی تحقیق کی جانی چاہیئے اوراعداد و شمار اکٹھے کیے جانے چاہئیں کہ اس طرح کے مزید بل کس مرحلے پر ہیں، تاکہ ان کی حمایت کی جا سکے۔