برطانیہ کے عوام کی اکثریت کی طرف سے ملک کو یورپی یونین سے علیحدہ کرنے کرنے کے حق میں ووٹ دینے کے بعد یونین کے بعض رکن ممالک کے رہنماؤں نے اپنے ردعمل میں اسے ایک بڑی غلطی قرار دیا ہے جب کہ ایسے ہی ریفرنڈم کے لیے بھی آوازیں سامنے آئی ہیں۔
یورپی یونین کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹکس کا کہنا تھا کہ برطانیہ یورپی یونین کو چھوڑ کر ایک غلطی کر رہا ہے جو کہ "دنیا کی واحلد بڑی منڈی ہے۔"
ان کا کہنا تھا کہ "اس سب کے نتائج ہوں گے اور میرا نہیں خیال کہ دیگر ممالک بھی یہ خطرناک راہ اپنائیں گے۔"
نیٹو کے سیکرٹری جنرل جین اسٹولٹنبرگ کا کہنا تھا کہ برطانیہ "نیٹو کا ایک مضبوط اور پرعزم اتحادی رہے گا اور اپنا قائدانہ کردار ادا کرتا رہے گا۔"
جرمنی کے وائس چانسلر سگمار گبریئل نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں ریفرنڈم کو "یورپ کے لیے ایک برا دن" قرار دیا۔
فرانس کے وزیر خارجہ جین مارک نے بھی ٹوئٹر کو اپنے ردعمل کا ذریعہ بناتے ہوئے کہا کہ "وہ برطانیہ کے لیے افسردہ ہیں۔" ان کے بقول "یورپ ایسے بھی چلتا رہے گا لیکن اسے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اپنے لوگوں کو اعتماد دوبارہ حاصل کرنا ہوگا۔"
امریکہ میں ممکنہ ریپبلکن صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے ریفرنڈم نے یورپی یونین کو چھوڑنے کے برطانوی عوام کے فیصلے کو سراہتے ہوئے کہا کہ "رائے شماری نے ان (لوگوں) کی اپنی سیاست، سرحدوں اور اقتصادیات پر گرفت کو مضبوط کرنے کو ظاہر کیا ہے۔"
ادھر بعض یورپی رہنماؤں کی طرف سے برطانوی عوام کے فیصلے کے تناظر میں اپنے ملک کو بھی یورپی یونین سے علیحدہ کرنے پر غور کرنے کا عندیہ دیا جا رہا ہے۔
فرانس میں انتہائی دائیں بازو کے رہنما مارین لی پین نے ریفرنڈم کے فیصلے کو "آزادی کی فتح" قرار دیتے ہوئے کہا کہ "جیسا کہ میں سالوں سے کہتا آیا ہوں ہمیں بھی اپنے ملک میں ایسا ہی ریفرنڈم کروانا چاہیے، فرانس اور دیگر یورپی ملکوں کو۔"
نیدرلینڈ کی ایک بڑی سیاسی جماعت فریڈم پارٹی کے رہنما گریٹ ولڈرز نے بھی ایسے ہی ریفرنڈم کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ "ہم اپنے ملک کے خود انچارج بننا چاہتے ہیں، اپنے سرحدوں، اپنی امیگریشن پالیسی اور اپنے پیسے کے خود انچارج بننا چاہتے ہیں۔ عوام کو اس کا فیصلہ کرنے دیں۔"
رواں ہفتے کیے گئے ایک سروے میں تقریباً 54 فیصد ڈچ شہریوں نے یورپی یونین سے علیحدگی یا اس میں شامل رہنے کے لیے ریفرنڈم کروانے کا کہا تھا۔
اسپین کے قائم مقام وزیراعظم ماریانو راجوئے نے اپنے ایک پیغام میں اپنے شہریوں سے ریفرنڈم کے تناظر میں "پرسکون" رہنے کا کہتے ہوئے کہا کہ اس پر اضطراب نہ پھیلایا جائے۔
روس میں کریملن کا کہنا تھا کہ یورپی یونین ایک اقتصادی قوت کا سرچشمہ رہے گا اور اس کے بقول برطانیہ کے ساتھ تعلق کو مضبوط بنایا جائے۔