|
’’اس ریستوراں میں بزنس اور امریکی امیگرینٹ کمیونٹیزکے ایک سماجی مشن کو ایک منفرد انداز سے گوندھ دیا گیا ہے۔‘‘
یہ کہنا تھا وائٹ ہاؤس کے قریب امیگرینٹ فوڈ ریستوراں کی کو فاؤنڈر بیلجئیم کی ایک تارک وطن آئیانووچ کا۔ تو آخر اس کی کہانی نے جنم کیسے لیا؟
’ جب مسائل مشترکہ ہیں تو انہیں مشترکہ طور پر حل کرنے کا کوئی پلیٹ فارم کیوں نہ تشکیل دیا جائے؟ ‘۔ یہ تھا وہ بنیادی خیال جس کو عملی جامہ پہنانے کی ایک چھوٹی سی کوشش کی یہاں واشنگٹن میں دو تارکین وطن نے ایک امیگرینٹ فوڈز ریسٹورینٹ کھول کر۔
این جی اوز کی پارٹنر شپ سے امیگرینٹس کے قانونی مسائل میں رہنمائی
بلجئیم سے آنے والی آئیوا نو وچ اور اٹلی کے پیٹر چییکٹر, وائٹ ہاؤس کے قریب قائم اپنے اس ریستوراں میں مختلف ملکوں کےامیگرینٹس کے لیے انکے ثقافتی پکوانوں کو دوسرے ملکوں کے ثقافتی کھانوں کے امتزاج کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔
جب کہ وہ امیگریشن کے مسائل کے حل سے متعلق این جی اوز کی پارٹنر شپ کے ساتھ ان کے مشترکہ مسائل کے حل کے لیے مفت رہنمائی اور مددکی فراہمی کےمشن کے لیے اس ریستوراں کو ایک پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کرتے ہیں ۔ خاص طور پر امیگریشن کے قوانین میں جامع اصلاحات کا مشن۔
یہ ریستوراں واشنگٹن ڈی سی میں تین مقامات پر قائم ہے جس کا عملہ مختلف ملکوں سے امریکہ میں آباد ہونے والے مردوں اور خواتین پر مشتمل ہے جن میں شیف سے لے کرمینیجر تک سب شامل ہیں۔
اس ہوٹل کی کو فاؤنڈر آئیوا نو وچ بلجئیم سے تعلق رکھنے والی ایک امیگرینٹ ہیں ، دوسرے فاؤنڈر پیٹر شیسٹر، روم اٹلی میں پیدا ہوئے تھے اور ان کے والدین کا تعلق آسٹریا اور جرمنی سے تھا۔
جنرل مینیجر کٹرین گارشیا کا تعلق وینزویلا سے ہے جو تین سال قبل امریکہ آئی تھیں ۔
یہ دنیا بھر کے ملکوں کا ایک امتزاج ہے ۔
اس ریستوراں میں تارکین وطن کےلیے کام کرنے والی این جی اوز کی شراکت سے امیگرینٹس کے مسائل حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔مثال کے طور پر امیگرینٹس کے قانونی مسائل کے حل کے لئے کام کرنے والی این جی اوز کو ریسٹورینٹ میں آئے ہوئے کسٹمرز کو مفت قانونی مشورے فراہم کرنے اورنئے تارکین وطن کو انگریزی زبان مفت سکھانے کے لیے جگہ فراہم کی جاتی ہے ۔
ریسٹورینٹ کی شیف البا گلاڈامیز ہیں جوایل سیلواڈور سے آئی ہیں، بیس سال قبل امریکہ آئی تھیں اور اب انہوں نے کئی ملازمتوں کے بعد کھانا پکانے کو اپناپروفیشن بنا لیا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ اس ریسٹورینٹ کے مینو کے ذریعے ہم امریکہ کے متنوع کلچر کو اجاگر کرتے ہیں ۔ہماری ہر ڈش ایک کہانی سناتی ہے ۔ یہ دنیا بھر کے ملکوں کا ایک امتزاج ہے ۔
تارکین وطن کے مسائل کے حل کا ایک پلیٹ فارم
یہاں پر آنے والے کسٹمرز اپنے اپنے امیگریشن کے مسائل کھانوں کی میز پر ڈسکس کرتے ہیں اور ریسٹورنٹ کا عملہ اور امیگریشن کے مسائل کے حل سے متعلق ریسٹورنٹ کے شراکت دار انہیں ان کے مسائل حل کرنے میں مدد کرتے ہیں۔
بلجئیم سے تعلق رکھنے والی اس ہوٹل کی کو فاؤنڈر آئیوانو وچ نے بتایا کہ ان کا ریستوراں انڈسٹری سے کوئی تعلق نہیں تھا وہ تو ایک جرنلسٹ تھیں ا ور ایک تھنک ٹینک سے وابستہ تھیں اور فائنشل پبلک ریلیشنز میں کام کرتی تھیں۔" لیکن جب میں اپنے کو فاؤنڈر پیٹرچیسٹر سے ملی تو ہم نے اس آئیڈیے پر کام شروع کیا کہ کس طرح ایک ایسا ریسٹورنٹ کھولیں جس کا ایک سماجی مشن بھی ہو۔"
ائیوانووچ، شیسٹر اور گلاڈیمیز تمام تارکین وطن ہیں جن کی مختلف کہانیاں ہیں، لیکن ان کا کہنا ہے کہ امیگرینٹ فوڈ میں ایک ساتھ، وہ اپنے، اپنے خاندانوں اور اپنے آس پاس کے لوگوں کے لیے ایک نئی زندگی پیدا کر رہے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
یہ نئے شہریوں کے لیے ووٹر رجسٹریشن کی مہم کی میزبانی بھی کرتا ہے اور مقامی کمیونٹیز کی تقریبات میں شرکت بھی کرتا ہے ۔۔ آئیانووچ کا کہنا ہے کہ اس ہوٹل میں بزنس اور ایک سماجی مشن کو منفرد انداز سے گوندھ دیا گیا ہے ۔
یہ ریسٹورنٹ جو واشنگٹن میں تین مقامات پر قائم ہے جس میں سے پہلا 2019 میں قائم ہوا تھا ،اب یہ امیگریشن کے مسائل کے حل کا مشن بھی ساتھ لے کر چل رہا ہے جس میں امریکہ میں امیگریشن کی جامع اصلاحات کا مشن شامل ہے ۔
امریکہ آنے والے تارکین وطن اپنی آبائی ثقافت کو ساتھ رکھتے ہیں۔
یو ں تو امریکہ دنیا بھر سے آنے والے تارکین وطن کا ملک ہے جو اگرچہ امریکی زبان ،لباس، سسٹم اور کلچر کے مختلف پہلووں کو اپناتے ہوئے اس کا حصہ بنتے ہیں لیکن وہ اپنے آبائی ملک کی زبان، کھانوں اور لباس اور ثقافت کو بھی ساتھ لے کر چلتے ہیں۔
آپکو یہاں ایک ہی سڑک پرعلاقے کی مختلف امیگرینٹ کمیونٹیز کےالگ لگ ریسٹورنٹس،گراسری اسٹورز اور بوتیک دکھائی دیں گے جہاں وہ سب اپنے اپنے آبائی ملکوں کے کھانوں، لباس اور اشیائے خوردو نوش کے علاوہ ضروریات زندگی کی وہ تمام چیزیں خرید سکتے ہیں جو ان کے آبائی ملکوں میں ان کی زندگی کا حصہ تھیں ۔
ان سب کو انگریزی زبان روانی سے بولنے ، صحت کی انشورنس، اچھے روزگار، امیگریشن کے قانونی مسائل اور مین اسٹریم امریکہ میں شامل ہونے کے لیے ایک جیسے مسائل درپیش ہوتے ہیں ۔لیکن وہ سب انفرادی سطح پر ان سے نمٹتے ہیں۔
وائس آف امریکہ کی