پاکستان کی انسانی حقوق کی وزارت کا کہنا ہے کہ ملک بھر کی مختلف جیلوں میں زیرِ سماعت فوجداری مقدمات میں قید خواتین کی سزا کا متبادل طریقہ وضع کر دیا جائے تو اس سے قیدی خواتین کے مسائل میں کمی واقع ہو سکتی ہے۔
یہ تجویز وزارتِ انسانی حقوق کی طرف سے پاکستان کی مختلف جیلوں میں قید خواتین کی حالتِ زار سے متعلق مرتب کی جانے والی ایک رپورٹ میں پیش کی گئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان کی مختلف جیلوں میں قید 67 فی صد خواتین کے مقدمات زیرِ سماعت ہیں۔
وزارتِ انسانی حقوق کی یہ رپورٹ وزیرِ اعظم عمران خان کی ہدایت پر جیلوں میں قید خواتین کی صورتِ حال اور اُنہیں ریلیف دینے کی غرض سے مرتب کی گئی ہے۔
رپورٹ میں مختلف مقدمات کے تحت جیلوں میں قید خواتین کو درپیش مسائل کے حل کے لیے انتطامی اور قانونی سطح پر اقدامات کی سفارش کی گئی ہے۔
رپورٹ میں دیے گئے اعدا و شمار کے مطابق پاکستان بھر کی جیلوں میں اس وقت مختلف مقدمات میں قید قیدیوں کی تعداد 73 ہزار سے زائد ہے۔ ان میں خواتین قیدیوں کی تعداد 1121 ہے جو مجموعی قیدیوں کی تعداد کا ایک اعشاریہ پانچ فی صد ہے۔
پنجاب میں 727 خواتین جب کہ سندھ میں 205، خیبر پختونخوا میں 166 اور بلوچستان میں 20 خواتین جیل میں ہیں۔
ان میں سے 134 خواتین ایسی ہیں جن کے ساتھ ان کے کم عمر بچے بھی رہ رہے ہیں اور جن کی مجموعی تعداد 195 ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان کی مختلف جیلوں میں بند خواتین قیدیوں میں سے 67 فی صد سے زائد ایسی ہیں جن کے مقدمات کی ابھی تک ابتدائی سماعت بھی نہیں ہو سکی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ زیرِ سماعت مقدمات میں قید خواتین کا تناسب کم کرنے کی اشد ضرورت ہے اور خواتین قیدیوں کی سزا کے متبادل طریقے وضع کرنے کی ضرورت ہے۔
رپورٹ میں قیدی خواتین کے رہن سہن، ماحول اور تعلیم تک رسائی کے لیے بحالی کے پروگرام کی سفارش بھی کی گئی ہے۔
انسانی حقوق کے کئی کارکنوں نے اس رپورٹ کو اہم قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ اس کی روشنی میں خواتین قیدیوں کے مسائل میں کمی کے لیے فوری طور پر عملی اقدامات کیے جائیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
ایک غیر سرکاری تنظیم 'جسٹس پروجیکٹ پاکستان' کی ڈائریکٹر سارہ بلال نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اس توقع کا اظہار کیا کہ حکومتی رپورٹ میں پیش کی گئی تمام سفارشات بشمول جیل کے قواعد و ضوابط پر نظر ثانی کر کے اُنہیں عالمی معیار کے مطابق بنایا جائے گا۔
سارہ بلال کے بقول خواتین کی جیلوں کا ماحول اور خواتین قیدیوں پر مامور خواتین عملے کو بہتر تربیت فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ قیدی ماؤں کے ساتھ جیلوں میں موجود بچوں کی تعلیم کے لیے مناسب انتظامات کیے جانے چاہیئں۔
انہوں نے کہا کہ قانون کے مطابق خواتین کو الگ جیلوں میں رکھنے کی ضرورت ہے۔ لیکن ان کے بقول پاکستان میں خواتین کے لیے صرف پانچ جیلیں ہیں۔ جب کہ عام جیلوں میں بھی خواتین کے لیے الگ بیرکس بنائی گئی ہیں۔
سارہ بلال نے وفاقی حکومت کی طرف سے قائم کردہ کمیٹی کی رپورٹ پر خواتین قیدیوں کے حقوق کے تحفظ اور انہیں جیلوں میں بہتر سہولیں فراہم کرنے کے لیے ایک واضح لائحہ عمل تجویز کیا گیا ہے۔ وہ توقع کرتی ہیں کہ حکومت اس رپورٹ پر عمل بھی کرے گی۔
انسانی حقوق کے ایک غیر سرکاری ادارے 'ہیومن رائٹس کمشن' کے سربراہ مہدی حسن کا کہنا ہے کہ پاکستان کی جیلوں میں زیادہ تعداد ایسے قیدیوں کی ہوتی ہے جن کے مقدمات ان کے بقول ابھی زیرِ سماعت ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں حکام کی طرف سے سفارش کی گئی تھی کہ معمولی جرائم میں ملوث قیدیوں کو رہا کر دیا جائے، لیکن ان کے بقول اس معاملے میں ابھی تک پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔
ہیومن رائٹس کمشن سے ہی وابستہ طاہرہ حبیب کا کہنا ہے کہ بعض خواتین قیدیوں کو عدالتوں میں اپنے مقدمات کا دفاع کرنے کے لیے مناسب قانونی سہولتیں میسر نہیں۔
طاہرہ حبیب کا کہنا ہے کہ یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ خواتین قیدیوں میں سے بعض کو ان کے اپنے خاندان بے یار و مددگار چھوڑ دیتے ہیں۔ ان کے پاس اپنے خلاف مقدمات میں دفاع کے لیے قانونی امداد حاصل کرنے کے وسائل نہیں ہوتے جس کی وجہ سے ان کے مقدمات کی سماعت میں تاخیر ہو جاتی ہے۔
ان کے بقول اگرچہ بعض سماجی تنظیمیں خواتین قیدیوں کو قانونی امداد فراہم کرنے میں سرگرم ہیں لیکن ان کے بقول یہ کافی نہیں ہے۔
وزارت انسانی حقوق کی رپورٹ میں پاکستانی جیلوں میں قید کاٹنے والی ان خواتین کے بارے میں کوئی تفصیل نہیں دی گئی جنہیں موت کی سزائیں سنائی جا چکی ہیں۔
لیکن کارنیل لا اسکول کے دنیا بھر میں سزائے موت سے متعلق مرکز کی 2018 میں جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ایسی قیدی خواتین کی تعداد 33 ہے جنہیں سزائے موت سنائی جا چکی ہے۔ ان میں زیادہ تر وہ خواتین ہیں جنہیں منشیات کی اسمگلنک یا گھریلو تشدد کے جرائم میں یہ سزا سنائی گئی۔
انسانی حقوق کی وزارت کی رپورٹ میں ان قیدی خواتین کے مقدمات کا جائزہ لینے کی سفارش کی گئی ہے جو معمر ہیں یا جنہیں ذہنی مسائل کا سامنا ہے۔ خاص طور پر وہ خواتین جنہیں سزائے موت سنائی جا چکی ہے۔
پاکستان کے وزیراعظم نے رواں سال مئی کے آخر میں مختلف جیلوں میں قید خواتین کے قید و بند کے حالات اور انہیں درپیش مسائل کا جائزہ لینے کے لیے ایک اعلی سطحی کمیٹی قائم کی تھی اور اسے چار ماہ کے اندر اپنی سفارشات پیش کرنے کی ہدایت کی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ انسانی حقوق کا تحفظ حکومت کی اولین ترجیح ہے اور اس سلسلے میں ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔