قطر کے وزیر خارجہ نے ان اطلاعات کی تردید کی ہے کہ گوانتاناموبے کی جیل سے قطر منتقل کیے گئے پانچ میں سے ایک طالبان قیدی نے عسکری کارروائی میں دوبارہ شامل ہونے کی کوشش کی ہے۔
وزیر خارجہ خالد العطیہ نے کہا کہ "یہ بالکل غلط ہے، وہ اسی معاہدے کے مطابق زندگی گزار رہے ہیں جو ہم نے امریکہ کے ساتھ کیا تھا"۔
گزشتہ مئی میں پانچ افراد کو گونتاناموبے سے امریکی سارجنٹ بووی برگدال کی رہائی کے بدلے میں چھوڑا گیا تھا۔
برگدال کو 2009ء میں عسکریت پسندوں نے افغانستان میں اس وقت یرغمال بنا لیا تھا جب وہ اپنی فوجی پوسٹ سے باہر گیا تھا۔
امریکی صدر اور قطر کے امیر کے درمیان طے پا جانے والے ایک معاہدے کے مطابق ان پانچ افراد کی نگرانی کو ضروری قرار دیا گیا تھا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ وہ دوبارہ عسکری کارروائی میں حصہ نہیں لیں گے۔
امریکی ٹی وی چینل 'سی این این' پر گزشتہ ہفتے نشر ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق امریکی فوج اور ا نٹیلی جنس کے عہدیداروں کو شبہ ہے کہ پانچ (طالبان) میں سے ایک جس کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی ہے، نے عسکری کارروائی کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے مشتبہ طالبان ساتھیوں سے "رابطہ کیا ہے"۔
اگر ان اطلاعات کی تصدیق ہو جاتی ہے تو یہ صدر اوباما کے لیے ایک سیاسی درد سر ثابت ہو سکتا ہے جو گوانتاناموبے جیل کو بند کرنا چاہتے ہیں اور انہوں نے اس کے باقی ماندہ قیدیوں کو بھی وہاں منتقل کرنے کا عمل تیز کر دیا ہے۔
تاہم قطر کے وزیر خارجہ خالد العطیہ نے موقر رسالے 'دی ایٹلانٹک میگزین" کے طرف سے منعقد کی گئی ایک تقریب میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس میں تشویش کی کوئی بات نہیں ہے۔
انھوں نے کہا کہ امریکی اور قطری سکیورٹی ادارے "نگرانی کریں گے اور اگر کچھ بھی ہوتا ہے تو وہ ان کو معلوم ہو جائے گا"۔ انھوں نے مزید کہا کہ "میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ کسی نے بھی واپس (افغانستان) جانے کی کوشش نہیں کی ہے"۔
العطیہ نے اس سے پہلے پیر کو امریکی وزیر خارجہ جان کیری سے ایک ملاقات میں قطر کے اس موقف پر زور دیا کہ شام میں داعش مخالف اتحاد اپنی توجہ شام کے صدر بشار الاسد کی طرف بھی مبذول کرے۔
انھوں نے کہا کہ صرف داعش پر ہی توجہ مرکوز رکھنا " قابل افسوس" ہے۔
العطیہ کے بقول حقیقت میں یہ (بشارالاسد کی) حکومت دہشت گردوں کی شام میں آنے کی وجہ بنی۔ انھوں نے مزید کہا کہ صرف بشارالاسد کو ہٹا کر ہی " ہم اس خطے سے دہشت گردی سے جان چھڑا سکتے ہیں"۔