صدارتی نامزدگی کی دوڑ میں شامل ریپبلکن امیدوار ٹیڈ کروز نے رواں ہفتے نیویارک سٹی کے سابق میئر مائیکل بلوم برگ کے دور میں آزمائے گئے ایک پولیس پروگرام کا حوالہ دیتے ہوئے مسلمان امریکیوں کی نگرانی کی تجویز دی۔
اس پروگرام کے تحت مسلم آبادیوں کی نگرانی کی جاتی تھی جہاں 9/11 کے حملوں کے بعد حکام کا خیال تھا کہ انہیں دہشت گردوں کا سراغ مل سکتا ہے۔
ٹیڈ کروز نے تجویز دی تھی کہ امریکی قانون نافذ کرنے والے ادارے ’’مسلم علاقوں کا گشت کرکے انہیں محفوظ بنائیں‘‘ جس پر نیویارک کے حکام اور مسلمان امریکیوں کی طرف سے شدید ناراضی کا اظہار کیا جا رہا ہے، جن کا خیال ہے کہ انہیں برسلز میں ہونے والے دہشت گردوں حملوں کے بعد بلاوجہ نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
کروز نے صدر اوباما پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ اصل مجرم کا نام لینے سے گریز کر رہے ہیں۔
’’صدر نے امریکیوں کو اسلاموفوبیا (اسلام سے خوف) پر لیکچر دینے کے لیے قومی ٹیلی وژن کانفرنسیں منعقد کرانے کو اپنا معمول بنا لیا ہے۔ اب بہت ہو گیا۔ ہمیں ایسا صدر چاہیئے جو ہماری قومی سلامتی، ہماری فوج اور ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی دشمن کو شکست دینے میں رہنمائی کرے۔‘‘
کروز نے کہا کہ اگر وہ صدر منتخب ہوئے تو وہ اسلامی شدت پسندی کو شکست دینے اور داعش کو مکمل طور پر تباہ کرنے کے لیے امریکہ کے غیض و غضب کو پوری طاقت سے استعمال کریں گے۔
بدھ کو ٹائمز سکوائر میں نیویارک سٹی کے میئر بل ڈی بلاسیو نے نیویارک کے محکمہ پولیس کے کمشنر بل بریٹن کے ہمراہ نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ وقت بدل گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ کروز کے بیان پر بہت ناراض ہیں خصوصاً اس لیے کیونکہ پولیس میں مسلمان افسر بھی موجود ہیں جو اپنی جانیں قربان کرنے کے لیے تیار ہیں۔
امریکہ میں رہنے والے مسلمانوں نے بھی کروز کے بیان پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں نفرت کا پرچار نہیں کرنا چاہیئے۔
برسلز میں ہونے والے حملے کے بعد میئر ڈی بلاسیو نے نیو یارک کے باسیوں کو یقین دلایا تھا کہ شہر پر حملے کی کوئی باوثوق اطلاعات نہیں ملی ہیں تاہم شہر کی سکیورٹی بڑھا دی گئی ہے۔