افغانستان سے قبائلیوں کی واپسی کا سلسلہ بحال

خوست کے قریب عارضی کیمپ میں موجود پاکستانی قبائلی (فائل فوٹو)

قبائلی علاقے شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کر کے سرحد پار افغانستان چلے جانے والے قبائلیوں کی واپسی کا سلسلہ پیر سے شروع ہو رہا ہے۔

جون 2014ء میں شدت پسندوں کے خلاف فوجی آپریشن ضرب عضب شروع ہونے پر سرحد کے قریب آباد ہزاروں قبائلی پاکستان کے علاقوں کی بجائے سرحد پار افغان صوبوں خوست اور پکتیکا چلے گئے جہاں پر یہ عارضی رہائش گاہوں میں مقیم تھے۔

ان کی واپسی کا عمل رواں سال کے اوائل میں شروع ہوا لیکن پھر بوجوہ یہ تعطل کا شکار ہو گیا تھا۔

اتوار کو قبائلی انتظامیہ اور دونوں ملکوں کے سرحدی عہدیداروں کے درمیان ہونے والی ملاقات میں افغانستان سے ان افراد کی واپسی کا عمل دوبارہ شروع کرنے پر اتفاق ہوا۔

قبائلی انتظامیہ کے مطابق جن لوگوں کے کوائف کا اندراج مکمل ہو چکا ہے وہ غلام خان کے سرحدی راستے سے پاکستان آئیں گے اور جنہیں کچھ عرصہ بنوں کے قریب بکا خیل کیمپ میں مقیم رکھنے کے بعد ان کے علاقوں میں واپس بھیج دیا جائے گا۔

حکام کے بقول تقریباً چھ ہزار قبائلی اس وقت بھی افغان علاقوں میں مقیم ہیں لیکن مقامی ذرائع کے مطابق یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔

بتایا جاتا ہے کہ افغانستان سے واپس آنے والے ان قبائلیوں کی مکمل جانچ پڑتال کی جاتی ہے جس کے مکمل ہونے پر انھیں واپسی کے لیے مالی معاونت اور راشن سمیت ان کی املاک ہو پہنچنے والے نقصان کے لیے زرتلافی بھی دیا جاتا ہے۔

قبائلیوں کی طرف سے ایسی شکایات بھی سامنے آتی رہی ہیں کہ بکا خیل یا باران کیمپ میں انھیں بہت وقت انتظار کرنا پڑتا ہے اور شدید گرم موسم کی وجہ سے ان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ اس پر ان قبائلیوں کی طرف سے احتجاج بھی کیا جاتا رہا ہے۔

تاہم حکام کے بقول کیمپوں میں مقیم افراد کو سلامتی کی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے مکمل چھان بین کے بعد ہی ان کے علاقوں میں واپس بھیجا جاتا ہے اور یہ سلسلہ جلد ہی مکمل ہو جائے گا۔