افغانستان میں مارچ کے دوران تشدد کی کارروائیوں میں 121 شہری ہلاک جب کہ 322 زخمی ہوئے۔ یہ بات شہریوں کے تحفظ کے حامی گروپ، ’سولین پراٹیکشن ایڈووکیسی گروپ‘ (سی پی اے جی) نے اپنی ایک رپورٹ میں کہی ہے۔
مہلک ترین حملہ 21 مارچ کو ہوا جب ایک خودکش بم حملہ آور نے شہریوں کو ہدف بنایا، جو کابل کے علاقے ’کرت سخی‘ پر ’نوروز‘ کی خوشیاں منا کر واپس آ رہے تھے۔ افغان اہل کاروں کے مطابق، حملے میں کم از کم 33 افراد ہلاک جب کہ 65 زخمی ہوئے۔
حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی ہے۔
ایک اور خودکش حملہ 23 مارچ کو جنوبی صوبہٴ ہیلمند کے دارالحکومت لشکر گاہ میں اُس وقت ہوا تھا جب وہاں کھیلوں کی ایک تقریب جاری تھی، جس میں کم از کم 14 افراد ہلاک جب کہ 42 زخمی ہوئے تھے۔
اس حملے کی کسی گروپ نے ذمے داری قبول نہیں کی۔
’سی پی اے جی‘ نے افغان قومی سکیورٹی اور دفاعی افواج پر بھی الزام لگایا ہے کہ 17 مارچ کو مشرقی صوبہٴ ننگرہار کے ضلعے چپرھار میں ایک فوجی کارروائی کے دوران کم از کم آٹھ شہری ہلاک ہوئے۔
سکیورٹی کے چیلنج
افغان حکومت کا کہنا ہے کہ فوجی کارروائیوں کے دوران شہریوں کی حفاظت کے لیے اُنھوں نے سخت ہدایت نامہ تیار کیا ہے۔ لیکن، خودکش بم حملوں اور دہشت گردی کے دیگر حربوں کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں پر کنٹرول انتہائی مشکل ہو جاتا ہے۔
افغان صدر کے ترجمان، شاہ حسین مرتضوی نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ ’’دہشت گرد گروپوں کی جانب سے کیے جانے والے حملوں کے دوران شہریوں کی زیادہ ہلاکتوں واقع ہوتی ہیں۔ اور یہ کہ کابل، ہیلمند اور ننگرہار میں ہونے والے دہشت گرد حملوں میں ہلاک ہونے والے سارے ہی شہری تھے۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ ’’افغان حکومت نے ’اے این ڈی ایس ایف‘ کو واضح ہدایت نامہ دیا ہے تاکہ شہری آبادی کی ہلاکتوں کو روکنے کی تمام تر کوششیں کی جائیں‘‘۔
کچھ لوگ اس مسئلے کا الزام قیادت پر دیتے ہیں۔
افغان فوج کے ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل گل نبی احمدزئی نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ ’’بدقسمتی سے، جب تک حکومت قیادت کی سطح پر موجودہ مسائل کا حل تلاش نہیں کرتی، دونوں، شہری اور فوجی ہلاکتیں درپیش آتی رہیں گی‘‘۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ ’’ہمارے فوجی حب الوطنی کے جذبے سے لڑتے ہیں۔ تاہم، قیادت کی سطح پر عدم انتظام کی کیفیت کا سامنا ہے۔ دشمن کو شکست دینے کے لیے افواج کو مناسب انداز سے استعمال نہیں کیا جاتا۔ اس لیے، بدقسمتی سے، زیادہ ہلاکتیں ہوتی ہیں۔‘‘
سنہ 2017میں 1000 ہلاکتں ہو چکی ہیں
حالیہ دِنوں جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں، انسانی حقوق سے وابستہ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر کے دفتر نے بتایا ہے کہ 10 فی صد کمی کے باوجود، شہری متاثرین، جن میں ہلاکتیں اور زخمی دونوں شامل ہیں، اُن کی 2017ء کے دوران کُل تعداد 10000 سے بھی زائد ہے۔
رپورٹ میں ہلاکتوں کی 65 فی صد تعداد حکومت مخالف عناصر کی بتائی جاتی ہیں، جب کہ اِن میں سے 20 فی صد حکومت کے حامی افراد ہیں۔