اکثر والدین بچوں کی بھلائی اور روشن مستقبل کے ارمان کے سامنے اپنے بچوں کی پسند اور ناپسند کو نظر انداز کر دیتے ہیں: رپورٹ
والدین اپنے بچوں کے روشن مستقل کاخواب ہمیشہ سےدیکھتے آئے ہیں۔ اپنی اولاد کو معاشرے میں عزت اور بلند مرتبے پر دیکھنے کی خواہش غریب اور امیر دونوں ہی والدین کی ہوتی ہے۔
اگر برطانیہ میں اپنے تجربے کے حوالے سے بات کی جائے تو یونیورسٹی میں پڑھنے والے بیشتر طالب علموں کا تعلق محنت کش گھرانوں سے ہوتا ہے، جن کے والدین یونیورسٹی کی فیس ادا کرنے کے لیے راتوں میں ٹیکسی چلاتے ہیں یا پھر مائیں گھروں سے سموسے بنا کر فروخت کرتی ہیں۔
متوسط طبقے کے یہ والدین بچوں کو وہ سب کچھ حاصل کرتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں جو کبھی ان کی خواہش رہی تھی اور بچوں کو ان کی منزل تک پہنچانے کے لیے وہ تعلیم کو واحد سیڑھی سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایشین طالب علموں کی ایک بڑی تعداد زیادہ تر میڈیسن اور سائنس سے وابستہ پیشوں کا انتخاب کرتی ہے جو معاشرے میں معزز ہونے کے ساتھ ساتھ اچھی کمائی کا ذریعہ ہیں۔
لیکن، بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ کیونکہ، اکثر والدین بچوں کی بھلائی اور روشن مستقبل کے ارمان کے سامنے اپنے بچوں کی پسند اور ناپسند کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔
تو کیا اس بات کے لیے والدین کو قصوروار ٹہرانا درست ہوگا؟
اس بحث میں پڑنے سے پہلے مجھے بالی وڈ کی فلم'تھری ایڈیٹس' کا ایک مکالمہ یاد آرہا ہے۔ عامر خان ایسے ہی والدین کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ، ’سبھی پانچوں انگلیوں کو کھینچ کر برابر کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں'۔
تو کیا واقعی ایسا ہے کہ اکیسویں صدی کے یہ والدین بچوں کو آج بھی اپنی ملکیت تصور کرتے ہیں؟ کیا اب بھی ایک ڈاکٹر کے بیٹے کو ڈاکٹر اور وکیل کے بیٹے کو وکیل بننے کے لیے ان پر دباؤ ڈالا جاتا ہے؟ یا پھر آج بھی بچوں کو یہ کہہ کر چپ کرادیا جاتا ہے کہ'ہم جانتے ہیں کہ تمھارے لیے کیا بہتر ہے'۔
برطانوی ادارہ تعلیم کے ایک دفتر'فئیر ایکسس' کی سربراہ لیس ابڈین کے مطابق برطانیہ کی بہترین یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے اکثر ایشین طالب علم پڑھائی کے دوران سخت مشکلات کا شکار نظر آتے ہیں۔ قانون اور میڈیسن جیسی مشکل پڑھائی کرنے والے طالب علموں پر ڈگری حاصل کرنے کے لیے والدین کی طرف سےاتنا دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ کئی بار ایسے طالب علم پڑھائی ادھوری چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔
اس مسئلے کو سمجھنے کے لیےمیں نے میتھس کے جینئس اور برطانوی یونیورسٹی کے سب سے کم عمر طالب علم 14سالہ وجہیہ احمد کے والدین سے بات کی۔
سعدیہ احمد نے بتایا کہ وجہیہ کی تربیت میں اس کے والد کابہت ہاتھ ہے۔ جہاں تک اپنی پسند بچوں پر ٹھونسنے کی بات ہے تو ہم نے ایسا کبھی نہیں کیا۔ ہمارے بچوں نے خود ہی ریاضی اور سائنس کے مضامین کا انتخاب کیا ہے۔ تاہم، اُن کے والد عثمان احمد کی رائے میں والدین کا فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کو ابتدا سے ہی رہنمائی فراہم کریں۔ کیونکہ، بچوں کا ناپختہ ذہن جلد ہی اچھا یا برا اثر قبول کر لیتا ہے۔ اس لیے انھیں ٹھیک وقت پر صحیح رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہم نے بچپن سےانھیں کھیل ہی کھیل میں ریاضی کی مشقیں کرائیں جس سےانھیں خود بخود اس مضمون سے ایک لگاؤ پیدا ہو گیا۔
اسی طرح، بچوں کو شروع سے اپنےمقصد کو اولیت دینےکی تربیت دی اور ان کی ہر طرح سے مدد کی ہے، جسے دباؤ ڈالنا یا مسلط کرنا نہیں کہا جا سکتا۔ وجہیہ کے سامنے اعلی اور معزز پیشوں کا انتخاب موجود تھا لیکن اس نے اکنامسٹ بننے کی خواہش کا اظہار کیا جبکہ میں پیشے کے اعتبار سے انجینئر اور اس کی والدہ وکالت کی ڈگری رکھتی ہیں.
28 سالہ فارمسٹ سبینہ برطانیہ میں پیدا ہوئی ہیں جبکہ ان کے والدین کا تعلق پاکستان سے ہے۔
انھوں نے اس بات سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ، ’ہم پانچ بہنیں ہیں اور میرے علاوہ کوئی بھی سائنس کے شعبے میں نہیں ہے بلکہ میری چھوٹی بہن آرٹس پڑھ رہی ہے۔ ہمارے والدین نے ہماری پسند کے پیشے کو اپنانے میں ہر طرح سے ہماری مدد کی ہے۔ فارمیسٹ بننا میرا اپنا فیصلہ تھا۔ البتہ، ہمارے والدین پڑھائی کو تمام مشاغل پر فوقیت دینے کی نصحیت ہمیشہ کرتے تھے۔
وقار اور اعجاز یونیورسٹی میں انجینئرنگ پڑھ رہے ہیں۔ وقارکا تعلق پاکستان سے ہے اور اعجاز کا تعلق ہندوستان سے۔ وقار کا کہنا ہے کہ اسے ایک سچائی سمجھ کر مان لینا چاہیے، کیونکہ دل سے ہر والدین کی یہی خواہش ہوتی ہے اور یہ ان کا حق بھی ہے کہ وہ ہماری پرورش کرتے ہیں۔
ادھر، 15 سالہ نعمان جو میٹرک سے فارغ ہونے کے بعد مختلف کالجوں میں سائنس کے مضامین حاصل کرنے کے درخواستیں جمع کرا رہے ہیں، انھوں نے اتنا ہی کہا کہ امی میرے گریڈز کے بارے میں فکر مند رہتی ہیں اور میرا مقابلہ ہمیشہ میرے کزنز کے ساتھ کرتی ہیں۔
س: تم کیا بننا چاہتے ہو؟
ج: مجھے فٹبال پسند ہے۔
تو یوں کہو کہ تم رونالڈو اور میسی کے مداح ہو؟
میں فٹبال کو زیادہ وقت دینا چاہتا ہوں لیکن میں مستقبل میں اس فیلڈ کو اپنا نہیں سکوں گا۔
ٹرانسپورٹ کے پیشے سے وابستہ ندیم ہاشمی اور ان کی اہلیہ ناز کا تعلق پاکستان سے ہے۔ ان کی دو بیٹیاں ہیں بڑی بیٹی جی سی ایس ای (میٹرک) کے آخری سال میں ہے۔
ہاشمی صاحب نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ برطانیہ میں رہنے والے پاکستانی والدین اپنے بچوں کو پوری آزادی سے ان کا یہ حق استعمال کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔
ہم نے اپنی بیٹی مریم کو اپنی رائے دینے سے قبل اُس کی دلچسپی معلوم کی جس پر اس نے ہمیں بتایا کہ وہ کارڈیالوجسٹ بننا چاہتی ہے۔ ہمارے لیے یہ بات باعث اطمینان تھی کہ اس نے اپنے لیے ایک معزز پیشے کا انتخاب کیا ہے۔
جہاں تک برطانوی نژاد پاکستانی کمیونٹی کا تعلق ہے تو ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسٹیوں کا حصہ بنیں۔ لیکن، یہ صرف ایشین والدین کی سوچ نہیں ہے میرے تجربے میں بہت سے تعلیم یافتہ برطانوی والدین ہیں جواپنے بچوں کو میڈیسن یا وکالت کے پیشہ اپنانے کے لیے رہنمائی کرتے ہیں۔
اگر آپ کی بیٹی آرٹس کے مضامین پڑھنا چاہتی تو تب بھی کیا آپ اسے یہ حق دیتے؟
کچھ والدین بچوں کو آرٹس پڑھانا نہیں چاہتے۔ لیکن، ہم اپنے بچوں کی خوشی میں خوش ہیں۔ مجھے بالکل کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔
بچے والدین کا اثاثہ ہوتے ہیں جنھیں پتھر سے ہیرا بنانےمیں ایک اہم کردار اساتذہ کا ہوتا ہے۔
برطانوی تعلیمی اداروں میں ہائی اسکول کے طالب علموں کو کئی بار جاب انسٹرکٹر سے ملوایا جاتا ہے، جو طالب علموں کی رہنمائی کرتے ہیں اور ان کے رجحان کی مناسبت سے مستقبل میں اپنائے جانے والے پیشوں کے چناؤ میں مدد فراہم کرتے ہیں۔
اگر برطانیہ میں اپنے تجربے کے حوالے سے بات کی جائے تو یونیورسٹی میں پڑھنے والے بیشتر طالب علموں کا تعلق محنت کش گھرانوں سے ہوتا ہے، جن کے والدین یونیورسٹی کی فیس ادا کرنے کے لیے راتوں میں ٹیکسی چلاتے ہیں یا پھر مائیں گھروں سے سموسے بنا کر فروخت کرتی ہیں۔
متوسط طبقے کے یہ والدین بچوں کو وہ سب کچھ حاصل کرتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں جو کبھی ان کی خواہش رہی تھی اور بچوں کو ان کی منزل تک پہنچانے کے لیے وہ تعلیم کو واحد سیڑھی سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایشین طالب علموں کی ایک بڑی تعداد زیادہ تر میڈیسن اور سائنس سے وابستہ پیشوں کا انتخاب کرتی ہے جو معاشرے میں معزز ہونے کے ساتھ ساتھ اچھی کمائی کا ذریعہ ہیں۔
لیکن، بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ کیونکہ، اکثر والدین بچوں کی بھلائی اور روشن مستقبل کے ارمان کے سامنے اپنے بچوں کی پسند اور ناپسند کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔
تو کیا اس بات کے لیے والدین کو قصوروار ٹہرانا درست ہوگا؟
اس بحث میں پڑنے سے پہلے مجھے بالی وڈ کی فلم'تھری ایڈیٹس' کا ایک مکالمہ یاد آرہا ہے۔ عامر خان ایسے ہی والدین کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ، ’سبھی پانچوں انگلیوں کو کھینچ کر برابر کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں'۔
تو کیا واقعی ایسا ہے کہ اکیسویں صدی کے یہ والدین بچوں کو آج بھی اپنی ملکیت تصور کرتے ہیں؟ کیا اب بھی ایک ڈاکٹر کے بیٹے کو ڈاکٹر اور وکیل کے بیٹے کو وکیل بننے کے لیے ان پر دباؤ ڈالا جاتا ہے؟ یا پھر آج بھی بچوں کو یہ کہہ کر چپ کرادیا جاتا ہے کہ'ہم جانتے ہیں کہ تمھارے لیے کیا بہتر ہے'۔
برطانوی ادارہ تعلیم کے ایک دفتر'فئیر ایکسس' کی سربراہ لیس ابڈین کے مطابق برطانیہ کی بہترین یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے اکثر ایشین طالب علم پڑھائی کے دوران سخت مشکلات کا شکار نظر آتے ہیں۔ قانون اور میڈیسن جیسی مشکل پڑھائی کرنے والے طالب علموں پر ڈگری حاصل کرنے کے لیے والدین کی طرف سےاتنا دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ کئی بار ایسے طالب علم پڑھائی ادھوری چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔
اس مسئلے کو سمجھنے کے لیےمیں نے میتھس کے جینئس اور برطانوی یونیورسٹی کے سب سے کم عمر طالب علم 14سالہ وجہیہ احمد کے والدین سے بات کی۔
سعدیہ احمد نے بتایا کہ وجہیہ کی تربیت میں اس کے والد کابہت ہاتھ ہے۔ جہاں تک اپنی پسند بچوں پر ٹھونسنے کی بات ہے تو ہم نے ایسا کبھی نہیں کیا۔ ہمارے بچوں نے خود ہی ریاضی اور سائنس کے مضامین کا انتخاب کیا ہے۔ تاہم، اُن کے والد عثمان احمد کی رائے میں والدین کا فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کو ابتدا سے ہی رہنمائی فراہم کریں۔ کیونکہ، بچوں کا ناپختہ ذہن جلد ہی اچھا یا برا اثر قبول کر لیتا ہے۔ اس لیے انھیں ٹھیک وقت پر صحیح رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہم نے بچپن سےانھیں کھیل ہی کھیل میں ریاضی کی مشقیں کرائیں جس سےانھیں خود بخود اس مضمون سے ایک لگاؤ پیدا ہو گیا۔
اسی طرح، بچوں کو شروع سے اپنےمقصد کو اولیت دینےکی تربیت دی اور ان کی ہر طرح سے مدد کی ہے، جسے دباؤ ڈالنا یا مسلط کرنا نہیں کہا جا سکتا۔ وجہیہ کے سامنے اعلی اور معزز پیشوں کا انتخاب موجود تھا لیکن اس نے اکنامسٹ بننے کی خواہش کا اظہار کیا جبکہ میں پیشے کے اعتبار سے انجینئر اور اس کی والدہ وکالت کی ڈگری رکھتی ہیں.
28 سالہ فارمسٹ سبینہ برطانیہ میں پیدا ہوئی ہیں جبکہ ان کے والدین کا تعلق پاکستان سے ہے۔
انھوں نے اس بات سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ، ’ہم پانچ بہنیں ہیں اور میرے علاوہ کوئی بھی سائنس کے شعبے میں نہیں ہے بلکہ میری چھوٹی بہن آرٹس پڑھ رہی ہے۔ ہمارے والدین نے ہماری پسند کے پیشے کو اپنانے میں ہر طرح سے ہماری مدد کی ہے۔ فارمیسٹ بننا میرا اپنا فیصلہ تھا۔ البتہ، ہمارے والدین پڑھائی کو تمام مشاغل پر فوقیت دینے کی نصحیت ہمیشہ کرتے تھے۔
وقار اور اعجاز یونیورسٹی میں انجینئرنگ پڑھ رہے ہیں۔ وقارکا تعلق پاکستان سے ہے اور اعجاز کا تعلق ہندوستان سے۔ وقار کا کہنا ہے کہ اسے ایک سچائی سمجھ کر مان لینا چاہیے، کیونکہ دل سے ہر والدین کی یہی خواہش ہوتی ہے اور یہ ان کا حق بھی ہے کہ وہ ہماری پرورش کرتے ہیں۔
ادھر، 15 سالہ نعمان جو میٹرک سے فارغ ہونے کے بعد مختلف کالجوں میں سائنس کے مضامین حاصل کرنے کے درخواستیں جمع کرا رہے ہیں، انھوں نے اتنا ہی کہا کہ امی میرے گریڈز کے بارے میں فکر مند رہتی ہیں اور میرا مقابلہ ہمیشہ میرے کزنز کے ساتھ کرتی ہیں۔
س: تم کیا بننا چاہتے ہو؟
ج: مجھے فٹبال پسند ہے۔
تو یوں کہو کہ تم رونالڈو اور میسی کے مداح ہو؟
میں فٹبال کو زیادہ وقت دینا چاہتا ہوں لیکن میں مستقبل میں اس فیلڈ کو اپنا نہیں سکوں گا۔
ٹرانسپورٹ کے پیشے سے وابستہ ندیم ہاشمی اور ان کی اہلیہ ناز کا تعلق پاکستان سے ہے۔ ان کی دو بیٹیاں ہیں بڑی بیٹی جی سی ایس ای (میٹرک) کے آخری سال میں ہے۔
ہاشمی صاحب نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ برطانیہ میں رہنے والے پاکستانی والدین اپنے بچوں کو پوری آزادی سے ان کا یہ حق استعمال کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔
ہم نے اپنی بیٹی مریم کو اپنی رائے دینے سے قبل اُس کی دلچسپی معلوم کی جس پر اس نے ہمیں بتایا کہ وہ کارڈیالوجسٹ بننا چاہتی ہے۔ ہمارے لیے یہ بات باعث اطمینان تھی کہ اس نے اپنے لیے ایک معزز پیشے کا انتخاب کیا ہے۔
جہاں تک برطانوی نژاد پاکستانی کمیونٹی کا تعلق ہے تو ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسٹیوں کا حصہ بنیں۔ لیکن، یہ صرف ایشین والدین کی سوچ نہیں ہے میرے تجربے میں بہت سے تعلیم یافتہ برطانوی والدین ہیں جواپنے بچوں کو میڈیسن یا وکالت کے پیشہ اپنانے کے لیے رہنمائی کرتے ہیں۔
اگر آپ کی بیٹی آرٹس کے مضامین پڑھنا چاہتی تو تب بھی کیا آپ اسے یہ حق دیتے؟
کچھ والدین بچوں کو آرٹس پڑھانا نہیں چاہتے۔ لیکن، ہم اپنے بچوں کی خوشی میں خوش ہیں۔ مجھے بالکل کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔
بچے والدین کا اثاثہ ہوتے ہیں جنھیں پتھر سے ہیرا بنانےمیں ایک اہم کردار اساتذہ کا ہوتا ہے۔
برطانوی تعلیمی اداروں میں ہائی اسکول کے طالب علموں کو کئی بار جاب انسٹرکٹر سے ملوایا جاتا ہے، جو طالب علموں کی رہنمائی کرتے ہیں اور ان کے رجحان کی مناسبت سے مستقبل میں اپنائے جانے والے پیشوں کے چناؤ میں مدد فراہم کرتے ہیں۔