اسلام آباد/پشاور —
کا لعدم تحریک طالبان پاکستان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملالہ یوسفزئی ’’پشتون ثقافت کے برعکس نا صرف مغربی اقدار کی حامی ہے بلکہ اس نے صدر اوباما کو بھی اپنا آئیڈیل قرار دیا ہے‘‘
پاکستان کی وادی سوات میں منگل کو مشتبہ طالبان شدت پسندوں نے امن ایوارڈ یافتہ ایک چودہ سالہ کمسن لڑکی ،ملالہ یوسفزئی، کو فائرنگ کر کے شدید زخمی کر دیا۔
یہ حملہ خطے کے انتظامی مرکز مینگورہ میں کیا گیا جب ملالہ ایک وین میں ساتھی طالبات کے ہمراہ واپس گھر جا رہی تھیں۔ فائرنگ سے دو دیگر لڑکیاں بھی زخمی ہوئیں۔
ملالہ کو فوری طور پر ایک مقامی اسپتال منتقل کیا گیا جہاں ابتدائی طبی امداد کے بعد اس کی گردن میں لگی گولی نکالنے کے لیے ایک خصوصی ہیلی کاپٹر کے ذریعے اسے پشاور کے سی ایم ایچ اسپتال منتقل کر دیا گیا۔
ڈاکٹروں نے ملالہ اس کی حالت خطرے سے باہر بتائی ہے۔
اسلام آباد میں وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے سینیٹ کے اجلاس سے خطاب میں اس حملے کو انتہا پسندانہ سوچ کی عکاس قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی۔
چودہ سالہ ملالہ یوسف زئی اور اُس کے نجی خوشحال پبلک اسکول کی طالبات فیسوں سے متعلق ایک نئے فیصلے کے خلاف ایک احتجاج میں شرکت کے بعد واپس گھر جا رہی تھیں جب دو مسلح افراد نے ان کی گاڑی کا راستہ روک لیا۔
اسپتال میں زیر علاج ایک زخمی طالبہ نے بتایا کہ ایک حملہ آور نے وین کے اندر بیٹھی طالبات سے دریافت کیا کہ ’’تم میں سے ملالہ کون ہے اور جب میں نے غیر ارادی طور پر گردن گما کر ملالہ کی طرف دیکھا تو اس نے ملالہ پر فوراً گولی چلا دی‘‘۔
ملالہ یوسفزئی نے سوات میں طالبان کے خلاف فوجی آپریشن سے قبل علاقے کے حالات پربرطانوی نشریاتی ادارے کے لیے ’گل مکئی‘ کے قلمی نام سے ڈائری لکھ کر شہرت حاصل کی تھی۔
حکومتِ پاکستان نے انہیں سوات میں طالبان کے عروج کے دور میں بچوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے پر نقد انعام اور امن یوارڈ دیا تھا جبکہ اُنھیں گزشتہ سال انٹرنیشنل چلڈرن پیس پرائز کے لیے بھی نامزد کیا گیا تھا۔
پاکستانی فوج نے 2009 میں ایک بھرپور فوجی آپریشن کر کے سوات اور ارگرد کے اضلاع سے طالبان شدت پسندوں کو مار بھگایا تھا۔ وادی میں تعلیمی سرگرمیاں بحال ہونے کے بعد ملالہ یوسف زئی نے وائس آف امریکہ کے ساتھ ایک انٹرویو میں اُس وقت جس خدشے کا اظہار کیا تھا وہ منگل کو ان پر ہونے والے حملے نے درست ثابت کردیا۔
’’زیادہ تر لوگ یہ سوچتے ہیں کہ طالبان کے اعلٰی کمانڈر ابھی زندہ ہیں اور وہ دوبارہ منظم ہو سکتے ہیں۔ ابھی زیادہ خوف نہیں ہے لیکن کبھی کبھی ہم ڈر جاتے ہیں کہ کہیں ایسا نا ہو کہ طالبان پھر آ جائیں۔‘‘
ملالہ یوسف زئی کا کہنا تھا کہ اگر لڑکیاں تعلیم حاصل نہیں کریں گی تو نہ ہی کوئی لیڈی ڈاکٹر ہوگی اور نہ استانی۔ مگر ان کا کہنا تھا کہ ان کی خواہش ہے کہ وہ ایک سیاست دان بنیں۔
صوبائی وزیر تعلیم سردار خان بابک نے وائس امریکہ کے ساتھ انٹرویو میں ملالہ یوسف زئی پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ خواتین اور معصوم بچیوں کو ایسی پرتشدد کارروائیوں کا نشانہ بنانا پختون معاشرے کی روایات کے بھی خلاف ہے۔
پاکستان کی وادی سوات میں منگل کو مشتبہ طالبان شدت پسندوں نے امن ایوارڈ یافتہ ایک چودہ سالہ کمسن لڑکی ،ملالہ یوسفزئی، کو فائرنگ کر کے شدید زخمی کر دیا۔
یہ حملہ خطے کے انتظامی مرکز مینگورہ میں کیا گیا جب ملالہ ایک وین میں ساتھی طالبات کے ہمراہ واپس گھر جا رہی تھیں۔ فائرنگ سے دو دیگر لڑکیاں بھی زخمی ہوئیں۔
ملالہ کو فوری طور پر ایک مقامی اسپتال منتقل کیا گیا جہاں ابتدائی طبی امداد کے بعد اس کی گردن میں لگی گولی نکالنے کے لیے ایک خصوصی ہیلی کاپٹر کے ذریعے اسے پشاور کے سی ایم ایچ اسپتال منتقل کر دیا گیا۔
ڈاکٹروں نے ملالہ اس کی حالت خطرے سے باہر بتائی ہے۔
اسلام آباد میں وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے سینیٹ کے اجلاس سے خطاب میں اس حملے کو انتہا پسندانہ سوچ کی عکاس قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی۔
چودہ سالہ ملالہ یوسف زئی اور اُس کے نجی خوشحال پبلک اسکول کی طالبات فیسوں سے متعلق ایک نئے فیصلے کے خلاف ایک احتجاج میں شرکت کے بعد واپس گھر جا رہی تھیں جب دو مسلح افراد نے ان کی گاڑی کا راستہ روک لیا۔
اسپتال میں زیر علاج ایک زخمی طالبہ نے بتایا کہ ایک حملہ آور نے وین کے اندر بیٹھی طالبات سے دریافت کیا کہ ’’تم میں سے ملالہ کون ہے اور جب میں نے غیر ارادی طور پر گردن گما کر ملالہ کی طرف دیکھا تو اس نے ملالہ پر فوراً گولی چلا دی‘‘۔
ملالہ یوسفزئی نے سوات میں طالبان کے خلاف فوجی آپریشن سے قبل علاقے کے حالات پربرطانوی نشریاتی ادارے کے لیے ’گل مکئی‘ کے قلمی نام سے ڈائری لکھ کر شہرت حاصل کی تھی۔
حکومتِ پاکستان نے انہیں سوات میں طالبان کے عروج کے دور میں بچوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے پر نقد انعام اور امن یوارڈ دیا تھا جبکہ اُنھیں گزشتہ سال انٹرنیشنل چلڈرن پیس پرائز کے لیے بھی نامزد کیا گیا تھا۔
پاکستانی فوج نے 2009 میں ایک بھرپور فوجی آپریشن کر کے سوات اور ارگرد کے اضلاع سے طالبان شدت پسندوں کو مار بھگایا تھا۔ وادی میں تعلیمی سرگرمیاں بحال ہونے کے بعد ملالہ یوسف زئی نے وائس آف امریکہ کے ساتھ ایک انٹرویو میں اُس وقت جس خدشے کا اظہار کیا تھا وہ منگل کو ان پر ہونے والے حملے نے درست ثابت کردیا۔
’’زیادہ تر لوگ یہ سوچتے ہیں کہ طالبان کے اعلٰی کمانڈر ابھی زندہ ہیں اور وہ دوبارہ منظم ہو سکتے ہیں۔ ابھی زیادہ خوف نہیں ہے لیکن کبھی کبھی ہم ڈر جاتے ہیں کہ کہیں ایسا نا ہو کہ طالبان پھر آ جائیں۔‘‘
ملالہ یوسف زئی کا کہنا تھا کہ اگر لڑکیاں تعلیم حاصل نہیں کریں گی تو نہ ہی کوئی لیڈی ڈاکٹر ہوگی اور نہ استانی۔ مگر ان کا کہنا تھا کہ ان کی خواہش ہے کہ وہ ایک سیاست دان بنیں۔
صوبائی وزیر تعلیم سردار خان بابک نے وائس امریکہ کے ساتھ انٹرویو میں ملالہ یوسف زئی پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ خواتین اور معصوم بچیوں کو ایسی پرتشدد کارروائیوں کا نشانہ بنانا پختون معاشرے کی روایات کے بھی خلاف ہے۔