سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کی سربراہ ڈاعین فائنسٹائن نے ایک بیان میں کہا کہ وائٹ ہاؤس کی طرف سے اُنھیں مطلع کیا گیا ہے کہ اتحادیوں سے متعلق معلومات کا خفیہ حصول ’’جاری نہیں رہے گا‘‘۔
امریکہ میں سینیٹ کی ایک سرکردہ رکن نے کہا ہے کہ اوباما انتظامیہ نیشنل سکیورٹی ایجنسی کو اتحادی ممالک کے رہنماؤں کی جاسوسی کا سلسلہ بند کرنے کی ہدایت دے گی۔
کیلیفورنیا سے منتخب ہوئی ڈیموکریٹ ڈاعین فائنسٹائن، جو سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کی سربراہ بھی ہیں، نے پیر کو جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا کہ وائٹ ہاؤس کی طرف سے اُنھیں مطلع کیا گیا ہے کہ اتحادیوں سے متعلق معلومات کا خفیہ حصول ’’جاری نہیں رہے گا‘‘۔
صدر براک اوباما کی نیشنل سکیورٹی کونسل کی ایک ترجمان کیٹلن ہیڈن نے چند گھنٹوں بعد جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا کہ انتظامیہ ’’اس عمل سے متعلق پہلے ہی کچھ فیصلے کر چکی ہے،‘‘ مگر اُنھوں نے فائنسٹائن کے بیان پر تبصرہ کرنے سے معذرت کی۔
اوباما انتظامیہ کو حالیہ ہفتوں کے دوران ان الزامات کے تناظر میں اندرونی اور بیرونی تنقید کا سامنا رہا ہے جن کے مطابق اس نے جرمنی کی چانسلر آنگیلا مرخیل کے موبائل فون سمیت 35 عالمی رہنماؤں کی ذاتی گفتگو اور انٹرنیٹ رابطوں کی نگرانی کی۔
فائنسٹائن نے ان الزامات کے منظر عام پر آنے کے بعد امریکہ کے تمام انٹیلی جنس پروگراموں کے ’’مکمل جائزے‘‘ پر زور دیا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ این ایس اے نے سینیٹ کی انٹیلی جنس ایجنسی کو ’’تسلی بخش انداز میں مطلع‘‘ نہیں کیا تھا۔
نیشنل انٹیلی جنس ڈائریکٹر جیمز کلیپر منگل کو ایوانِ نمائندگان کی انٹیلی جنس کمیٹی کے سامنے پیش ہو رہے ہیں، جہاں اُنھیں متوقع طور پر اس اسکینڈل کے بارے میں سوالات کا سامنا کرنا ہوگا۔
این ایس اے کے سابق کنٹریکٹ ملازم ایڈورڈ اسنوڈن نے رواں برس ایسی خفیہ معلومات افشا کی تھیں جن سے امریکی شہریوں اور عالمی رہنماؤں کے انٹرنیٹ اور ٹیلی فون ریکارڈز کی وسیع پیمانے پر نگرانی کے اشارے ملے۔
کیلیفورنیا سے منتخب ہوئی ڈیموکریٹ ڈاعین فائنسٹائن، جو سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کی سربراہ بھی ہیں، نے پیر کو جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا کہ وائٹ ہاؤس کی طرف سے اُنھیں مطلع کیا گیا ہے کہ اتحادیوں سے متعلق معلومات کا خفیہ حصول ’’جاری نہیں رہے گا‘‘۔
صدر براک اوباما کی نیشنل سکیورٹی کونسل کی ایک ترجمان کیٹلن ہیڈن نے چند گھنٹوں بعد جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا کہ انتظامیہ ’’اس عمل سے متعلق پہلے ہی کچھ فیصلے کر چکی ہے،‘‘ مگر اُنھوں نے فائنسٹائن کے بیان پر تبصرہ کرنے سے معذرت کی۔
اوباما انتظامیہ کو حالیہ ہفتوں کے دوران ان الزامات کے تناظر میں اندرونی اور بیرونی تنقید کا سامنا رہا ہے جن کے مطابق اس نے جرمنی کی چانسلر آنگیلا مرخیل کے موبائل فون سمیت 35 عالمی رہنماؤں کی ذاتی گفتگو اور انٹرنیٹ رابطوں کی نگرانی کی۔
فائنسٹائن نے ان الزامات کے منظر عام پر آنے کے بعد امریکہ کے تمام انٹیلی جنس پروگراموں کے ’’مکمل جائزے‘‘ پر زور دیا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ این ایس اے نے سینیٹ کی انٹیلی جنس ایجنسی کو ’’تسلی بخش انداز میں مطلع‘‘ نہیں کیا تھا۔
نیشنل انٹیلی جنس ڈائریکٹر جیمز کلیپر منگل کو ایوانِ نمائندگان کی انٹیلی جنس کمیٹی کے سامنے پیش ہو رہے ہیں، جہاں اُنھیں متوقع طور پر اس اسکینڈل کے بارے میں سوالات کا سامنا کرنا ہوگا۔
این ایس اے کے سابق کنٹریکٹ ملازم ایڈورڈ اسنوڈن نے رواں برس ایسی خفیہ معلومات افشا کی تھیں جن سے امریکی شہریوں اور عالمی رہنماؤں کے انٹرنیٹ اور ٹیلی فون ریکارڈز کی وسیع پیمانے پر نگرانی کے اشارے ملے۔