معروف امریکی اخبار ’نیو یارک ٹائمز‘ نے خبر دی ہے کہ پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے دو طرفہ مذاکرات کی بحالی کیلئے اپنے بھارتی ہم منصب جنرل بیپن راوت سے خفیہ رابطہ کیا ہے؛ تاہم، بھارتی آرمی چیف نے اُن کی پیشکش کا خاطر خواہ جواب نہیں دیا۔
اخبار کے مطابق، یہ رابطہ پاکستان کے قومی انتخابات سے قبل کیا گیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جنرل باجوہ کے اس اقدام کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ پاکستان کی بگڑتی ہوئی معاشی صورت حال کو خطے کی سلامتی کیلئے خطرہ سمجھتے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جنرل باجوہ نے اس خیال کا اظہار اپنے اُس بیانیہ میں بھی کیا تھا، جسے عرف عام میں ’باجوہ ڈاکٹرین‘ کہا جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق، جنرل باجوہ سمجھتے ہیں کہ معاشی بدحالی سے ملک میں تخریبی کارروائیاں زور پکڑ سکتی ہیں اور اگر بھارت کے ساتھ تعلقات معمول پر آ جائیں تو مسئلہٴ کشمیر پر بات چیت کے ساتھ ساتھ تجارتی روابط میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے، جس سے پاکستان کی برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ ہو سکتا ہے۔
معروف دفاعی تجزیہ کار جنرل ریٹائرڈ طلعت مسعود نے ’وائس آف امریکہ‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی حکومت اور فوج دونوں کی جانب سے یہ ’’دیرینہ خواہش رہی ہے‘‘ کہ بھارت کے ساتھ تعلقات بحال ہوں اور جب سویلین سطح پر کی جانے والی کوششیں بارآور ثابت نہ ہوئیں تو فیصلہ کیا گیا کہ فوجی سربراہان کی سطح پر رابطہ کر کے دیکھ لیا جائے۔
تاہم، اُنہوں نے کہا کہ بھارت میں فوجی قیادت کا سیاسی پالیسی سازی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا؛ اور اس بات کا امکان ہے کہ بھارتی حکومت نے جنرل راوت کو کوئی جواب دینے سے روک دیا ہو، ’’کیونکہ، اُن کے نزدیک حکومت اور وزارت خارجہ ہی اس بارے میں کوئی قدم اُٹھانے کے مجاز ہوں گے‘‘۔
جنرل طلعت مسود نے کہا ہے کہ پاکستان بھارت تعلقات، دراصل پاکستان امریکہ تعلقات کی نوعیت سے مشروط ہیں۔ تاہم، فی الوقت واشنگٹن سے جو اشارے موصول ہو رہے ہیں، اُن کے تناظر میں اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ پاکستان کے امریکہ کے ساتھ اور پھر بھارت کے ساتھ تعلقات میں فوری طور پر کوئی بہتری سامنے آئے۔
لندن میں مقیم سیاسی تجزیہ کار اور سویلین ملٹری تعلقات کی ماہر شمع جونیجو نے ’وائس آف امریکہ‘ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’پاکستانی آئین کی رو سےفوج حکومت کے ماتحت ایک ادارہ ہے اور یہ بات واضح نہیں ہے کہ آرمی چیف نے وزیر اعظم اور وزارت خارجہ کی اجازت کے ساتھ یہ رابطہ کیا یا اس کیلئے اُنہوں نے ایسا کرنا مناسب نہیں سمجھا‘‘۔
شمع جونیجو نے کہا کہ بھارت میں فوج کے سربراہ کو وہ حیثیت حاصل نہیں ہے جو پاکستان میں آرمی چیف کو حاصل ہے۔ لہٰذا، بھارت کے آرمی چیف جواب دینے کے حوالے سے اپنی حدود سے بخوبی آگاہ ہیں اور اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ وہ سویلین قیادت اور خاص طور پر بھارت کے وزیر اعظم کی منظوری کے بغیر براہ راست جنرل باجوہ کی پیشکش کا کوئی جواب دے سکیں۔ شمع جونیجو کے بقول، ’’جنرل باجوہ کے اس اقدام کو نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ پوری دنیا میں منفی انداز میں دیکھا گیا اور اس سے مسئلہ حل ہونے کے بجائے مزید پیچیدہ ہو گیا ہے‘‘۔
جنرل باجوہ اور بھارتی آرمی چیف جنرل راوت کئی برس قبل کانگو میں اقوام متحدہ کی امن فوج میں ایک ساتھ کام کر چکے ہیں۔ اور بتایا جاتا ہے کہ اُس وقت سے دونوں میں دوستانہ روابط موجود ہیں۔ تاہم، پاکستان میں فوج کی طاقت مسلمہ ہے، جبکہ بھارت میں سیاسی طور پر فوج کی حیثیت نسبتاً خاصی کمزور ہے؛ اور یوں وہ سویلین حکومت کی مرضی کے بغیر دو طرفہ تعلقات کی بحالی کیلئے خود کوئی قدم اُٹھانے سے قاصر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جنرل راوت نے جنرل باجوہ کی پیشکش کا خاطر خواہ جواب نہیں دیا ہے۔
بھارت میں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم نرندر مودی اگلے برس ہونے والے قومی انتخابات کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ وہ اس موقع پر پاکستان کے ساتھ تعلقات کی بحالی کیلئے مزاکرات شروع کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے، کیونکہ ایسے مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں اُن کی جماعت کو انتخابات میں شدید خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ یوں بھارت میں انتخابات مکمل ہونے سے پہلے پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر ہونے کی اُمید کم ہی ہے۔
پاکستان کے نومنتخب وزیر اعظم عمران خان نے بھی اپنے پہلے خطاب میں کہا تھا کہ وہ پاکستان کے تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ پر امن دوستانہ تعلقات استوار کرنے کے خواہاں ہیں۔ اسلام آباد اور نئی دہلی میں سفارکاروں کا کہنا ہے کہ عمران خان کی طرف سے بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی خواہش کو فوج کی طرف سے مکمل تائید حاصل ہے اور وہ یہ بات بخوبی جانتے ہوں گے کہ بھارت کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے فوج کی توقعات اور حدود کیا ہے۔
تاہم، پاکستان آرمی چیف کی طرف سے بھارتی آرمی چیف سے خفیہ طور پر رابطہ کرنے کے حوالے سے فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر کی طرف سے کوئی تصدیق یا تردید سامنے نہیں آئی۔