ایران پاکستان سمیت کئی ممالک میں سینکڑوں مخالفین کے قتل اور اغوا میں ملوث ہے: رپورٹ

فائل فوٹو

  • ایران کی سرحد پار کارروائیوں پر تحقیقاتی رپورٹ عبدالرحمان برومند سینٹر نے جاری کی ہے۔
  • رپورٹ کے مطابق 1979 میں انقلاب کے بعد قائم ہونے والی ایرانی حکومت نے ملک کے اندر اور باہر اپنے مخالفین کو خاموش کرانے کے لیے متعدد جرائم کیے ہیں۔
  • سینٹر کے مطابق 45 سال کے دوران ایرانی حکومت نے سرحد پار ساڑھے 800 سے زائد کارروائیاں کی ہیں۔
  • ایران نے امریکہ، کینیڈا، عراق، پاکستان اور ترکیہ جیسے ممالک میں اپنے مخالفین کو نشانہ بنایا ہے: رپورٹ

ویب ڈیسک — ایران کے حوالے سے حال ہی میں شائع ہونے والی ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق ایرانی حکومت سرحد پار سینکڑوں غیر قانونی اقدامات میں ملوث ہے جن میں مختلف ممالک میں اپنے مخالفین کو قتل اور اغوا کرنے جیسی کارروائیاں شامل ہیں۔

یہ رپورٹ ایران میں انسانی حقوق اور جمہوریت کے فروغ کے لیے کام کرنے والے عبدالرحمان برومند سینٹر نے جاری کی ہے جس کا عنوان ’ایران: اسٹیٹ وائلنس ود آؤٹ بارڈرز‘ ہے۔

عبد الرحمان برومند سینٹر کی رپورٹ کے مطابق فروری 1979 میں ایران میں انقلاب کے بعد قائم ہونے والی حکومت اپنے ’ناپسندیدہ‘ افراد کو ملک کے اندر اور باہر اپنے ایجنٹ کے ذریعے لاپتا کرنے، اغوا کرنے اور قتل کرنے کی کارروائیوں میں ملوث ہے۔

رپورٹ میں ایسے 862 کیسز کا حوالہ دیا گیا ہے جن میں ایران نے امریکہ، کینیڈا، فرانس، برطانیہ، عراق، پاکستان، ترکیہ اور جرمنی جیسے ممالک میں اپنے مخالفین کو ’قتل‘ یا ’اغوا‘ کیا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’ان کارروائیوں میں ایرانی حکام، سفارت کاروں اور سیکیورٹی فورسز کی جانب سے احکامات، منصوبہ بندی اور جرائم کا ارتکاب نہ صرف ثابت ہوچکا ہے بلکہ متعدد مواقع پر ایرانی حکام نے ان کارروائیوں کی تصدیق بھی کی ہے۔‘‘

عبدالرحمان برومند سینٹر کے مطابق عدم شفافیت، باقاعدہ تحقیقات نہ ہونے اور آزادانہ فیلڈ ریسرچ کی عدم موجودگی میں ان کارروائیوں کے متاثرین کی درست تعداد نامعلوم ہے جب کہ ایران نے اپنی سرحد سے باہر کم از کم 452 ایسی کارروائیاں کی ہیں۔

رپورٹ میں ایک نقشہ بھی شامل کیا گیا ہے جس کے مطابق ایران کی حکومت گزشتہ 45 سال میں 861 ماورائے قانون کیسز میں ملوث ہے جن میں 124 کیسز قتل، اقدامِ قتل یا جان سے مارنے کی دھمکیوں کے ہیں۔

سینٹر نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ایران میں ان جرائم میں ملوث افراد کے خلاف قانونی کارروائی نہیں کی گئی ہے بلکہ حقائق سامنے لانے اور انصاف کے تقاضے پورے کرنے کا مطالبہ کرنے والوں کو سزائیں دی گئی ہیں۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جن ممالک کی حدود میں یہ جرائم ہوئے ہیں وہ بھی کئی کیسز میں ’متاثرین‘ کی جان اور حصولِ انصاف جیسے حقوق کا تحفظ یقینی بنانے کی اپنی ذمے داریاں ادا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

رپورٹ میں شامل نقشہ۔

سینٹر نے اپنی رپورٹ میں یہ نشاندہی بھی کی ہے کہ ایران کی کارروائیوں اور ان کے محرکات سے آگاہی کے باجود بعض ممالک نے سینٹر کے بقول متاثرین اور عوام کو درست معلومات تک رسائی نہیں دی ہے۔

اس کے بقول کئی کیسز میں قومی سلامتی، سیاسی ترجیحات اور معاشی مفادات کے پیش نظر ایسی کارروائیوں میں ملوث مشتبہ افراد کو گرفتار نہیں کیا گیا اور بعض صورتوں میں گرفتار شدہ ملزمان کو اپنے ملک سے باہر جانے کی اجازت بھی دی گئی ہے۔

اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ قوانین پر عمل درآمد اور جوابدہی نہ ہونے کی وجہ سے ایسی کارروائیوں میں ملوث افراد کو کھلی چھوٹ ملنے کا تاثر ملا ہے اور ان کے لیے آئندہ بھی ایسے اقدامات کرنے کی راہ ہموار ہوئی ہے جس کی وجہ سے مخالفین کو خاموش کرانے کے ایرانی حکومت کے عزائم کو تقویت ملی ہے۔

عبدالرحمان برومند سینٹر کا کہنا ہے کہ اس رپورٹ کی تیاری کا مقصد متاثرین کے حقوق کے تحفظ، سوسائٹی کی معلومات تک رسائی کے حق، اور ایران یا اس کے ایجنٹس کی ماورائے قانون قتل کی وارداتوں میں ملوث عناصر کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کی کوششوں کے لیے معاونت فراہم کرنا ہے۔

اس خبر کا مواد وی او اے فارسی سے لیا گیا ہے۔