ایک امریکی ادارے نے کہا ہے کہ افغانستان کی سکیورٹی فورسز کی تعداد میں مسلسل کمی آ رہی ہے اور اس وقت افغان سیکورٹی اہلکاروں کی تعداد گذشتہ چار سال کی کم ترین سطح پر ہے۔
امریکی حکومت کے اسپیشل انسپکٹر جنرل فار افغانستان ری کنسٹرکشن (سگار) نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ سیکورٹی اہلکاروں کی تعداد میں کمی کے باعث افغانستان کے علاقوں اور آبادی پر حکومت کا کنٹرول مزید مشکل ہوگیا ہے اور حکومت کا دائرۂ اثر سکڑتا جا رہا ہے۔
'سگار' امریکہ کی جانب سے افغانستان میں کی جانے والی تعمیرِ نو کی سرگرمیوں کی نگرانی کے لیے قائم سرکاری ادارہ ہے جو ہر تین ماہ بعد اپنی رپورٹ پیش کرتا ہے۔
ادارے کی حالیہ رپورٹ میں افغان اہلکاروں کی تعداد میں کمی کا اعتراف ایسے وقت کیا گیا ہے جب امریکہ اور طالبان کے درمیان افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا اور عبوری سیاسی انتظام پر بات چیت جاری ہے۔
رپورٹ میں امریکی انسپکٹر جنرل نے کہا ہے کہ افغانستان کے فوجی اور پولیس اہلکاروں کی تعداد گذشتہ سال اکتوبر کے اختتام پر 308693 تھی جو ان کی مقررہ تعداد سے لگ بھگ 12 فی صد کم ہے۔
رپورٹ کے مطابق، افغان سیکورٹی اہلکاروں کی یہ تعداد جنوری 2015 کے بعد سے ریکارڈ کی جانے والی سب سے کم تعداد ہے جب نیٹو نے افغان اہلکاروں کو تربیت اور مشاورت فراہم کرنے اور ان کی معاونت کے مشن کا آغاز کیا تھا۔
رپورٹ میں افغان سیکورٹی اہلکاروں کی تعداد میں کمی کی وجوہات بیان نہیں کی گئی ہیں۔ افغان حکومت بھی شدت پسندوں کے حملوں میں مرنے والے اہلکاروں کی تعداد نہیں بتاتی جس سے یہ پتا چلایا جاسکے کہ اہلکاروں کی تعداد میں کمی میں طالبان کے حملوں کا کتنا حصہ ہے۔
لیکن، سیکورٹی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ افغان سیکورٹی اداروں میں اہلکاروں کے سروس چھوڑنے اور بغیر اطلاع چھٹی پر جانے کی شکایات عام ہیں۔
صدر اشرف غنی نے رواں ماہ ہی سوئٹزرلینڈ میں عالمی اقتصادی فورم سے خطاب کے دوران دعویٰ کیا تھا کہ 2014ء میں ان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے 45 ہزار افغان سیکورٹی اہلکار ہلاک ہوچکے ہیں۔
'سِگار' کی رپورٹ میں اس تعداد کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اگر صدر کا یہ دعویٰ درست ہے تو گزشتہ 53 ماہ کے دوران افغانستان میں ہر ماہ اوسطاً 849 سیکورٹی اہلکار ہلاک ہوئے۔
رپورٹ میں افغانستان میں سیکورٹی کی صورتِ حال کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اکتوبر 2018ء تک افغانستان کے 8ء53 فی صد اضلاع کا کنٹرول حکومت کے پاس تھا جہاں کی آبادی افغانستان کی کل آبادی کا 5ء63 فی صد ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان کا باقی ماندہ علاقہ یا تو طالبان کے قبضے میں ہے یا اس پر قبضے کے لیے فریقین کے درمیان کشمکش جاری ہے۔
طالبان گو کہ اب تک افغانستان کے کسی بڑے شہر پر قبضہ تو نہیں کرسکے ہیں۔ لیکن، انہوں نے ملک کے دیہی علاقوں پر قبضے کے لیے اپنا دباؤ بڑھا دیا ہے۔
خود امریکی حکام اعتراف کرچکے ہیں کہ طالبان اس وقت جتنے طاقت ور ہیں اتنا وہ 2001ء میں افغانستان پر امریکی حملے کے بعد سے کبھی نہیں رہے۔
-------------------------------------------------------------------------------------
وائس آف امریکہ اردو کی سمارٹ فون ایپ ڈاون لوڈ کریں اور حاصل کریں تازہ تریں خبریں، ان پر تبصرے اور رپورٹیں اپنے موبائل فون پر۔
ڈاون لوڈ کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
اینڈرایڈ فون کے لیے: https://play.google.com/store/apps/details?id=com.voanews.voaur&hl=en
آئی فون اور آئی پیڈ کے لیے: https://itunes.apple.com/us/app/%D9%88%DB%8C-%D8%A7%D9%88-%D8%A7%DB%92-%D8%A7%D8%B1%D8%AF%D9%88/id1405181675