"ووٹنگ کے ایک دن پر ہمارے مُستقبل کے پانچ سالوں کا انحصار ہوتا ہے تو چاہے پھر یہ ہمارا سینٹر لاہور کے کسی دوسرے کونے میں بھی بنا دیتے تو حق رائے دہی کے استعمال سے ہمیں روک نہیں پاتے۔"
یہ کہنا تھا لاہور میں قومی اسمبلی کے حلقہ 121 کے علاقے بہار شاہ روڈ پر ووٹ کاسٹ کرنے آئی رضوانہ الطاف کا جو رہائشی تو عسکری 10 سوسائٹی کی تھیں۔ لیکن اُن کا ووٹ اُن کی سوسائٹی سے باہر حلقے کے ایک دوسرے علاقے میں ۔
بہار شاہ روڈ پر ایک نجی اسکول میں بنے پولنگ اسٹیشن پر لگی ایک لمبی لائن میں کھڑی رضوانہ الطاف صبح نو بجے ہی ووٹ دینے پہنچ گئی تھیں۔ ہماری ملاقات اُن سے جمعرات کے روز صبح لگ بھگ ساڑھے 10 بجے ہوئی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ گزشتہ انتخابات میں اُن کا ووٹ اُن کی سوسائٹی کے اندر ہی ایک اسکول میں تھا۔ لیکن اس بار اُنہیں نہ صرف اُن کے رہائشی علاقے سے دور ووٹ کاسٹ کرنے آنا پڑا بلکہ ایک ایسی جگہ سینٹر بنایا گیا جہاں کھڑے ہونے کا بھی مناسب انتظام نہیں ہے۔
ان کے بقول مرکزی شاہراہ ہے اور لوگوں کی لمبی قطاریں ہیں۔ ٹریفک کی روانی الگ متاثر ہو رہی ہے۔
اُن کے ساتھ قطار میں کھڑی دیگر خواتین بھی بتانے لگیں کی کہ اُن کا پولنگ اسٹیشن بھی یہ نہیں بنتا اور صرف اُنہیں تنگ کرنے کے لیے ایک ایسا پولنگ اسٹیشن دیا گیا ہے جس تک پہنچنے کے لیے اُنہیں گاڑی بھی دور کھڑی کرنی پڑی۔
عابدہ شریف نامی خاتون کا کہنا تھا کہ انتظامیہ کیا سمجھتی ہے کہ سینئر سیٹیزن کو گھنٹوں لائن میں کھڑا رکھیں گے اور بیٹھنے کا کوئی انتظام بھی نہیں کریں گے تو وہ ہمت ہار کر واپس چلے جائیں گے۔
اُنہوں نے کہا کہ ریاست کے اسی رویے نے ہمیں یہاں تک پہنچایا ہے کہ اُنہیں پورا دن بھی یہاں کھڑا ہونے پڑے تو وہ کھڑی ہوں گی۔ لیکن ووٹ کاسٹ کیے بغیر یہاں سے نہیں جائیں گی۔
بہار شاہ روڈ کے علاوہ لاہور میں حلقہ این اے 121 کے دیگر پولنگ اسٹیشنز پر بھی صبح سے ہی ووٹرز کا رش دکھائی دیا جس کے بعد ہم نے شہر کے دیگر حلقوں کا رُخ کیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
ماڈل ٹاؤن پہنچنے پر بھی لوگوں کی ایک بڑی تعداد مُختلف پولنگ اسٹیشنز کے باہر دکھائی دی۔ لنک روڈ پر بنے ایک پولنگ اسٹیشن کے باہر ہماری ملاقات لانگ نیکر اور شرٹ پہنے نوجوان عاصم بشیر سے ہوئی جنہوں نے ہمارے ہاتھ میں مائیک دیکھ کر ہم سے ہی پوچھ لیا کہ آپ تو شہر گھوم کر آ رہے ہوں گے۔ بتائیں کہ خاموشی اور صبر کا جواب ووٹ کے شور سے ملتا دکھائی دے رہا ہے؟
ہم نے بھی اُن سے سوال کیا کہ آپ بتائیں کیا آپ ووٹ کاسٹ کر آئے ہیں اور آپ بطور شہری کیا ماحول دیکھ رہے ہیں؟ جس پر اُنہوں نے جواب دیا کہ بہت عرصے سے ہمیں بے اختیار سمجھ کر چُپ کرایا جا رہا تھا۔ لیکن ہم صرف آٹھ فروری کا انتظار کر رہے تھے کیوں کہ ہمیں اپنی خاموشی ووٹ کے ذریعے توڑنی تھی۔
اُنہوں نے کہا کہ کیا آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ان پولنگ اسٹیشنز پر آنے والے لوگ جنہیں برگر یا ممی ڈیڈی بچے کہہ کر مخاطب کیا جاتا تھا۔ کہتے تھے کہ یہ سختیاں نہیں جھیل سکتے۔ آج جب مُستقبل کی بات ہے تو یہی ممی ڈیڈی ووٹرز صبح سے اپنا حق رائے دہی کا فریضہ سر انجام دینے گھروں سے باہر ہیں۔ نہ ہم آج سوئے ہوئے ہیں اور نہ پہلے سو گئے تھے۔ صرف صبر کر رہے تھے کہ اُمیدِ صبح کبھی تو طلوع ہوگی۔
ان دونوں حلقوں میں چونکہ ہمیں تحریکِ انصاف کے حمایت یافتہ اُمیدواروں کے حق میں لوگ زیادہ دکھائی دیے تو ہم نے فیصلہ کیا کہ کیوں نہ کسی ایسے حلقے میں جایا جائے جو خالصتاََ کسی اور جماعت کا گڑھ ہو۔ ہم نے حلقہ 127 کا جائزہ لینے جانے کا سوچا۔
لاہور میں قائدِ اعظم انڈسٹریئل اسٹیٹ سے گزرتے ہوئے جب ہم کوٹ لکھپت کی جانب مڑے تو رکشوں کی ایک لمبی قطار دیکھی اور ہر رکشے پر پیپلز پارٹی کے پینا فلیکس اور جھنڈے نظر آئے۔
یہ لاہور کا وہی حلقہ ہے جہاں سے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بھی میدان میں اُترے اور اُنہوں نے نہ صرف خود یہاں سے انتخابی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔ بلکہ پیپلز پارٹی بھی خاصی متحرک رہی۔
یہاں ہماری ملاقات سڑک پر کھڑے ایک سینئر صحافی آصف محمود سے ہوئی جنہوں نے ہمیں بتایا کہ اس حلقے میں کچھ پولنگ اسٹیشن ایسے بھی ہیں جہاں کا عملہ ان مٹ سیاہی ختم ہو جانے کی شکایات کر رہا ہے جس کے باعث اکثر لوگ ایک بار ووٹ ڈالنے کے باوجود دوبارہ سے آکر ووٹ ڈالنے کی کوشش کرتے بھی پکڑے گئے۔
اُن سے بات چیت کے دوران ہم نے انتخابی دن کا وہ کلچر بھی ڈسکس کیا جس میں صبح سویرے ہی علاقائی سیاسی کارکنوں کی جانب سے گھر گھر جا کر گلی محلوں کے دروازے بھی کھٹکھٹائے جاتے تھے اور آوازیں دے کر کہا جاتا تھا کہ ویگن یا رکشہ باہر موجود ہے۔ سب گھر والے نکل آئیں تاکہ ووٹ ڈالنے جایا جاسکے جس کی یاد ہمیں حلقہ این اے127 میں آکر ضرور آئی کیوں کہ اس حلقے میں وہ کلچر اب بھی زندہ نظر آیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
اس سے پہلے کور کیے دونوں حلقوں میں لوگ اپنی مدد آپ کے تحت ووٹنگ اسٹیشنز پہنچتے دکھائی دیے تھے۔ یہاں ہماری بات چند رکشہ ڈرائیوروں سے بھی ہوئی جن سے بات کرنے پر معلوم ہوا کہ متعلقہ یونین کونسل میں پیپلز پارٹی کی جانب سے لگ بھگ 150 رکشوں کا انتخابی دن کے لیے بُک کیا گیا ہے جن کا کام ووٹرز کو اُن کے گھر سے لے کر پولنگ اسٹیشن تک لے کرجانا ہے اور اس کام کے لیے اُنہیں تین ہزار روپے دیہاڑی پر بُلایا گیا ہے۔
رکشہ ڈرائیور ارشد ندیم کا کہنا تھا کہ یوں بھی آج چھٹی کا دن ہے۔ ایسے میں لوگ گھروں سے کم ہی باہر نکلتے ہیں تو اس طرح اُنہیں روزگار کی تلاش میں مارے مارے نہیں پھرنا پڑا۔
اسی حلقے میں ہمیں انٹرویوز کرتے دیکھ دو خواتین ہمارے پاس آکر رُکیں اور پنجابی میں کہنے لگیں کہ میں یہاں دو ووٹ لے کر آئی ہوں ایک میرا اور ایک میری بیٹی کا جس کا شوہر بھی نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارا تو گزارا اتنی مُشکل سے ہوتا ہے اور مجھے پتا چلا تھا کہ آپ ووٹ ڈالنے آئیں تو یہ لوگ مدد کریں گے۔ لیکن یہاں تو ہمیں کسی نے کُچھ نہیں دیا اور ہمارا وقت بھی ضائع ہوگیا۔
کچا جیل روڈ سے ہوتے ہوئے ہم نے حلقہ 119 جانے کا فیصلہ کیا جسے انتخابی سرگرمیوں کے دوران مریم نواز کے حلقے کے طور پر پکارا جاتا تھا۔
گریفن گراؤنڈ ریلوے کالونی کے پاس بنے ایک پولنگ اسٹیشن پر ہم نے بریک لگائی۔ جیسے ہی گاڑی سے نیچے اُترے تو کانوں میں لوگوں کی مُختلف آوازیں سُنائی دینے لگیں جس میں ایک آواز ایک عُمر رسیدہ خاتون کی تھی جو ہاتھ میں پرچی تھامے کسی سے پوچھ رہی تھیں کہ شاہی ڈیرہ کہاں ہے؟ پہلے کسی نے کہا کہ آپ کا ووٹ اس پولنگ اسٹیشن ہے اور اب وہ شاہی ڈیرہ جانے کو کہہ رہے ہیں۔
ایسے ہی سوال دو تین اور لوگ بھی ایک دوسرے سے پوچھ رہے تھے۔
ہمارے پوچھنے پر لوگ بتانے لگے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے دیے گئے 8300 نمبر کی سروس بند ہے تو کُچھ پتا نہیں چل رہا کہ ہمارا سینٹر کہاں بنا ہے۔
بہت سے لوگ گزشتہ انتخابات میں بنے پولنگ اسٹیشن ہی آ رہے تھے کہ شاید یہی سینٹر ان انتخابات میں بھی بنا ہو۔ لیکن بہت سے لوگوں کا اندازہ غلط بھی ثابت ہو رہا تھا۔
تھوڑا آگے بڑھنے پر چند خواتین کی آواز کان میں پڑی کہ اگر یہ پوچھیں گے تو میں ضرور بتاؤں گی جس پر میں نے آگے بڑھ کر اُن سے پوچھا کہ کیا آپ ہمیں کُچھ بتانا چاہ رہی ہیں؟ تو اُنہوں نے کہا کہ جی اس پولنگ اسٹیشن میں کافی دیر سے لائٹ نہیں ہے جس کی وجہ سے ووٹرز کو ووٹ ڈالنے میں دُشواری پیش آرہی ہے۔ بہت سی عُمر رسیدہ خواتین بھی اندر ہیں جنہیں بیلٹ پیپر پر نشانات واضح نظر نہیں آرہے۔
اُن کی بات کی وضاحت کے لیے ہم پولنگ اسٹیشن کے اندر گئے تو وہاں بجلی نہیں تھی۔
پریزائیڈنگ افسر سے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ شاید معمول کی لوڈ شیڈنگ ہے اور اُنہیں بھی موبائل ٹارچ کی روشنی میں ہی کام کرنا پڑ رہا ہے۔ لیکن ہماری موجودگی میں ہی بجلی آگئی تھی۔
Your browser doesn’t support HTML5
اس حلقے کے بعد ہم نے فیصلہ کیا کہ کسی ایسے حلقے میں جاتے ہیں جو شہری آبادی سے دور لاہور کے نواح میں ہو تاکہ معلوم ہو سکے کہ دیہی علاقوں میں کیا صورتِ حال ہے۔
جی ٹی روڈ پر چلتے ہوئے ہم واہگہ بارڈر کی جانب بڑھنے لگے اور باٹا پور کے مضافاتی گاؤں دوگیج پہنچے۔
یہاں ماحول بالکل مُختلف نظر آیا۔ حلقہ این اے 120 کے جس پولنگ اسٹیشن پر چار بج کر 22 منٹ پر ہم پہنچے یہاں لگ رہا تھا کہ پولنگ شاید ختم ہو چُکی ہے کیوں کہ پولنگ اسٹیشن میں کوئی خاص ووٹر موجود نہیں تھے۔
پولنگ اسٹیشن کے باہر ایاز صادق کی تصویر والی شرٹ پہنے افراد سے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ چوں کہ اس پولنگ اسٹیشن میں ووٹرز کی تعداد کم تھی تو شاید یہی وجہ ہے کہ لوگوں کے آنے کا سلسلہ وقت سے پہلے ہی تھم چُکا تھا۔
یہاں ہمیں پولنگ اسٹیشنز کے باہر صرف پاکستان مُسلم لیگ (ن) کے کیمپس دکھائی دیے جو کہ شہر کے برعکس معاملہ تھا۔
شہری علاقوں میں ہر پولنگ اسٹیشن کے باہر ہر جماعت نے اپنے اپنے کیمپس کا انتظام ضرور کر رکھا تھا۔
اس کے بعد ہم نے اسی حلقے کے ایک اور پولنگ اسٹیشن کا جائزہ لینے کا سوچا جس کے لیے ہم بھسین گاؤں کے ایک پولنگ اسٹیشن پہنچے۔ اس وقت تک پانچ بجنے میں 10 منٹ ہی باقی تھے۔ اس لیے یہاں بھی چند ایک ووٹرز ہی دکھائی دیے۔
پریزائیڈنگ افسر کے کمرے میں پہنچے تھے تو اُنہیں فارغ بیٹھا دیکھ ہم نے ٹرن آؤٹ کے بارے میں سوال کیا کہ ابھی تو ووٹنگ ختم ہونے میں 10 منٹ باقی ہیں اور آپ کے یہاں ووٹرز نہیں؟ تو اُنہوں نے کہا کہ دیہی علاقہ ہونے کے باوجود یہاں مردوں اور عورتوں کا ووٹنگ ٹرن آؤٹ اس قدر زیادہ تھا کہ اُنہیں سر اُٹھا کر اوپر دیکھنے کا بھی وقت نہیں ملا اور وہ اب سے 10 منٹ پہلے ہی وہ آرام سے بیٹھے ہیں۔ کیوں کہ زیادہ تر لوگ ووٹ کاسٹ کرکے جا چُکے ہیں۔
اُن کے مطابق لوگوں کا ردِ عمل بہت پُرجوش تھا جیسے وہ یہی سمجھ کر آئے ہوں کہ وہ ایک اہم فریضہ سر انجام دینے جا رہے ہیں۔ البتہ دیہی آبادی کے اعتبار سے اُنہیں لوگوں کو ووٹنگ عمل سمجھانے میں چیلنجز ضرور رہے۔ اس کام کے لیے الیکشن کمیشن کی جانب سے اُن کی باقاعدہ تربیت کی گئی تھی۔ اس لیے عملے کو اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے کوئی خاصی مُشکل نہیں ہوئی۔
اس کے ساتھ ہی پولنگ کا عمل ختم ہوا اور ضروری کوریج کے بعد ہم وہاں سے نکل آئے جس کے بعد نتائج کے انتظار کا سلسلہ شروع ہوا۔