افغانستان میں حکام نے کہا ہے کہ افغان طالبان کے امیر ملا عمر کی ہلاکت سے متعلق خبروں کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
بدھ کو ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی خبروں میں کہا گیا تھا کہ ملا عمر ہلاک ہو چکے ہیں۔
افغان صدر اشرف غنی کے ایک ترجمان سید ظفر ہاشمی نے صحافیوں کو بتایا کہ ’’ہم ملا عمر کی ہلاکت سے متعلق خبروں سے آگاہ ہیں۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ ان خبروں کی تصدیق کا عمل جاری ہے ’’جیسے ہی ہمیں درست معلومات ملیں اُس سے میڈیا اور افغان عوام کو آگاہ کیا جائے گا۔‘‘
اُدھر افغان طالبان ذرائع نے ملا عمر کی ہلاکت کی خبروں کی تردید کی ہے۔
خبر رساں ادارے ’روئیٹرز‘ نے نام ظاہر کیے بغیر پاکستان میں موجود افغان طالبان کے ایک سینئیر رہنماء کے حوالے سے کہا تھا کہ ملا عمر کی موت طبعی تھی اور قیادت کا مسئلہ حل کرنے میں کچھ وقت لگے گا۔
افغانستان میں 2001ء میں امریکہ کی زیر قیادت بین الاقوامی افواج کی کارروائی کے بعد سے ملاعمر روپوش رہے۔
گزشتہ چند سالوں سے ایسی اطلاعات سامنے آتی رہیں کہ ملا عمر ہلاک ہو چکے ہیں لیکن کسی بھی سطح پر اس کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔
اس سے قبل بھی افغان طالبان کی طرف سے ملا عمر کی ہلاکت سے متعلق خبروں کی تردید کی جاتی رہی ہے۔
رواں ماہ ہی عیدالفطر سے قبل ملاعمر سے منسوب ایک تحریری بیان سامنے آیا تھا جس میں اُنھوں نے ملک میں قیام امن کے لیے افغانستان کی حکومت سے بات چیت کے عمل کو جائز قرار دیا تھا۔
افغانستان میں طالبان کی حکومت کے قیام کے بعد 1996ء میں ملا عمر کو ’امیر المومنین‘ کا خطاب دیا گیا۔ اور افغانستان میں موجود تمام ہی شدت پسند گروپ اُنھیں اپنا امیر تسلیم کرتے رہے۔
ملاعمر کی ہلاکت سے متعلق تازہ خبر ایسے وقت سامنے آئی جب افغان طالبان اور افغانستان کی حکومت کے درمیان مذاکرات کا ایک اور دور رواں ہفتے متوقع ہے۔
پاکستان کی میزبانی میں پہلی مرتبہ جولائی کے اوائل میں طالبان اور افغان حکومت کے درمیان براہ راست ملاقات ہوئی تھی۔ اسلام آباد کے مضافات میں واقع سیاحتی مقام مری میں ہونے والی بات چیت میں امریکہ اور چین کے نمائندے بھی شریک تھے۔
امریکہ کی حکومت نے ملاعمر کے سر کی قیمت ایک کروڑ ڈالر مقرر کر رکھی ہے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ ملا عمر کی ہلاکت سے متعلق تازہ خبروں کے تناظر میں افغان طالبان کے آپسی اختلافات مزید بڑھ سکتے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق امن مذاکرات پر افغان طالبان کے بعض رہنماؤں میں پہلے ہی اختلافات موجود ہیں۔