افغانستان میں امن و مصالحت کی کوششوں کے سلسلے میں اطلاعات کے مطابق پاکستان نے گزشتہ ہفتے افغان طالبان کے ایک وفد کی میزبانی کی۔
آئندہ ماہ روس میں افغانستان سے متعلق ہونے والے ایک مجوزہ اجلاس سے قبل اس ممکنہ رابطے کا مقصد طالبان پر دباؤ ڈالنا تھا کہ وہ امن عمل میں شامل ہوں۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹیڈ پریس نے طالبان نمائندوں کے حوالے سے کہا کہ ملا محمد عباس کی قیادت میں سات افغان طالبان رہنماؤں کی اسلام آباد میں میزبانی کی گئی۔
تاہم پاکستان کی طرف سے ان اطلاعات کی تاحال نا تو باقاعدہ تردید کی گئی اور نا ہی تصدیق۔
اس بارے میں افغانستان کی طرف سے بھی تاحال کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔
آئندہ ماہ ماسکو میں افغانستان سے متعلق ہونے والے مجوزہ اجلاس میں چین، روس اور پاکستان کے علاوہ افغانستان، ایران اور بھارت بھی شرکت کرے گا۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹیڈ پریس کے مطابق طالبان عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اُنھوں نے اسلام آباد میں حکام سے ملاقات کے دوران اپنی کچھ شرائط بھی پیش کیں جن میں پاکستان قید افغان طالبان قیدیوں کی رہائی کی شرط بھی شامل تھی۔
پاکستان کے سابق سفارت کار اور افغان امور پر نظر رکھنے والے تجزیہ کار رستم شاہ مہمند نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اُنھیں بھی ایسی اطلاعات ملی ہیں کہ افغان طالبان کے ایک وفد نے پاکستان کا دورہ کیا ہے۔
’’پاکستان (کوشش) کر رہا ہے کہ کوئی ایسا فریم ورک بن جائے کہ طالبان کا (کوئی حتمی ردعمل) سامنے آ سکے یہ دورہ اُسی کی ایک کڑی ہو سکتی ہےکیونکہ کچھ طالبان تو چلے گئے ہیں افغانستان کے اندر، اور بعض طالبان اور ان کے خاندان ابھی تک یہاں پر ہے لہذا ان کو یہ ڈر ہے کہ ایسے موقع پر پاکستان ان پر دباؤ ڈالے گا اور کہ یا تو پاکستان کے ساتھ وہ شریک ہو جائیں اور (بات چیت میں)شرکت کریں یا وہ پاکستان چھوڑ کر یہاں سے چلے جائیں تو اس کے مدنظر یہ بات چیت وہ (طالبان) جاری رکھے ہوئے ہیں حالانکہ خدشات اور تحفظات ان کے بہت سے ہیں لیکن ان کی مجبوریاں بھی ہیں۔‘‘
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اُمور خارجہ کے چیئرمین اویس لغاری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ وہ افغان وفد کی پاکستان آمد سے آگاہ تو نہیں لیکن اُن کے بقول روس نے افغان مصالحتی عمل کی کوششوں میں روس کی شمولیت اہم ہے۔
’’چار ملکی گروپ (کیو سی جی) نے تو بہت کوشش کی تھی اور ہم امریکہ، پاکستان، چین اور افغانستان (پر مشتمل گروپ) کی کوششوں کو سراہتے ہیں۔۔۔ اب روس جیسا ملک بھی (افغانستان میں مصالحت کی کوششوں میں) شامل ہوا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ روس کی شمولیت کے بعد چار ملکی گروپ مزید فعال ہونا چاہیئے اور سب کو مل جل کر اس میں کوشش کرنی چاہیئے۔‘‘
واضح رہے کہ گزشتہ سال اکتوبر میں بھی افغان طالبان کے ایک وفد نے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔
اس دوے کے بعد افغان طالبان کے ترجمان ذبیع اللہ مجاہد نے کہا تھا کہ اس دورے کا ایک مقصد طالبان کے کئی سینیئر راہنماؤں کی گرفتاری پر بھی بات چیت کرنا تھا۔
افغان طالبان کے وفد کی پاکستان آمد کی یہ خبر ایسے وقت سامنے آئی جب طالبان نے اپنے ملک میں عسکری کارروائیوں کو تیز رکھا ہے۔
جمعرات ہی کو یہ اطلاعات سامنے آئیں کہ طالبان نے صوبہ ہلمند کے ایک اہم ضلع ’سنگین‘ پر قبضہ کر لیا ہے۔ اگرچہ فوری طور پر افغان وزارت دفاع کی طرف ایسی خبروں کی تردید کی گئی لیکن مقامی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اب سنگین طالبان کے قبضے میں ہے۔