نائیجیریا کی فوج کا کہنا ہے کہ عسکریت پسند گروہ ’بوکو حرام‘ کے سربراہ ابوبکر شیخو کی ہلاکت یا شدید زخمی ہونے کی اطلاعات کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
ابوبکر شیخو 2009 سے افریقہ کے ملک نائیجیریا میں جاری شورش کے سرکردہ عسکریت پسند کمانڈروں میں شامل ہیں۔ اس شورش کے نتیجے میں اب تک لگ بھگ 30 ہزار افراد ہلاک اور 20 لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔
اس صورتِ حال کو دنیا کے بد ترین انسانی بحرانوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق جمعرات کو نائیجیریا کے ذرائع ابلاغ میں خفیہ اداروں کے ذرائع کے حوالے سے یہ خبر دی گئی کہ ابوبکر شیخو مخالف انتہا پسند گروہ داعش (دولتِ اسلامیہ صوبہ مغربی افریقہ) کے ساتھ لڑائی میں بری طرح زخمی ہونے کے بعد ہلاک ہو گئے ہیں۔
واضح رہے کہ یہ گروہ شیخو کی تنظیم سے 2016 میں الگ ہوا تھا۔ تاہم، اس خبر کی تاحال تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔
نائیجیریا کی فوج کے ترجمان محمد یریما کا کہنا ہے کہ ان اطلاعات کی تحقیق کی جاری ہے اور تصدیق ہونے کے بعد ہی اس بارے میں کچھ کہا جا سکتا ہے۔
گزشتہ 12 برس کے دوران متعدد مواقع پر ابوبکر شیخو کی ہلاکت کی اطلاعات سامنے آچکی ہیں۔ ایک مرتبہ نائیجیریا کی فوج نے شیخو کی ہلاکت کا باقاعدہ اعلان بھی کر دیا تھا جس کے بعد ابوبکر شیخو نے ویڈیو جاری کی تھی۔
SEE ALSO: بوکو حرام کے ابوبکر شیخو کے دعوے دار شخص کی وڈیو جاریسن 2014 میں نائیجیریا کی 300 سے زائد طالبات کے اغوا کی کارروائی کے بعد ابو بکر شیخو اور ان کی تنظیم کو عالمی طور پر توجہ حاصل ہوئی تھی۔
بوکو حرام کے نام سے شناخت بنانے والی اس تنظیم کا اصل نام ’جماعت اہلِ السنہ لدعوة و الجہاد‘ ہے اور یہ گزشتہ ایک عشرے سے زائد شمال مشرقی نائیجیریا میں شورش برپا کیے ہوئے ہے۔
پانچ برس قبل ابوبکر شیخو اور بوکو حرام کے تحت کام کرنے والے ایک گروہ نے ان سے اپنی راہیں جدا کرلی تھیں اور شام اور عراق کی شدت پسند تنظیم داعش (دولتِ اسلامیہ) سے وفاداری کا اعلان کیا تھا۔ ’اسلامک اسٹیٹ آف ویسٹ افریقہ پرونس‘ نامی اس گروہ کو بوکو حرام کی جانب سے عام شہریوں کے قتل پر اعتراض تھا۔
’رائٹرز‘ کے مطابق، اگر ابوبکر شیخو کی موت کی تصدیق ہو جاتی ہے تو اس کے نتیجے میں یہ دونوں گروہوں کے آپس میں ضم ہونے کا امکان پیدا ہو جائے گا جس کے بعد یہ شمال مشرقی نائیجیریا کے علاقوں میں اپنی گرفت مضبوط کر سکتے ہیں۔