شام کی خانہ جنگی پر نظر رکھنے والے ایک غیر ملکی ادارے نے دعویٰ کیا ہے کہ کرد جنگجووں نے دولتِ اسلامیہ کے ساتھ کئی مہینوں سے جاری لڑائی کے بعد بالآخر سرحدی قصبے کوبانی پر قبضہ کرلیا ہے۔
برطانیہ میں قائم ادارے 'سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس' کے مطابق شام میں آباد کردوں کے لڑاکا دستوں نے عراقی کردستان کی فوج 'پیش مرگہ' کے تعاون سے شدت پسندوں کو پیچھے دھکیل کر ترکی کی سرحد کے ساتھ واقع قصبے کا مکمل کنٹرول سنبھال لیا ہے۔
ایک سینئر کرد اہلکار ادریس نسان نے بھی 'آبزرویٹری' کے دعوے کی تصدیق کی ہے۔ لیکن امریکی محکمۂ دفاع نے ان اطلاعات کی تصدیق یا تردید سے گریز کرتے ہوئے کہا ہے کہ کوبانی پر قبضے کے لیے جاری لڑائی "ابھی ختم نہیں ہوئی"۔
'پینٹاگون' کے ترجمان کرنل اسٹیو وارن نے پیر کو صحافیوں کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان اطلاعات کی تصدیق نہیں کرسکتے کہ کوبانی کے گرد گزشتہ چھ ماہ سے جاری دولتِ اسلامیہ کے جنگجووں کا محاصرہ مکمل طور پر توڑ دیا گیا ہے۔
ترجمان نے کہا کہ وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ جنگ جیت لی گئی ہے۔ ان کے بقول، جنگ ابھی جاری ہے لیکن اتنا کہا جاسکتا ہے کہ لڑائی میں دوست فورسز کو برتری حاصل ہے۔
اس سے قبل امریکی فوج نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے اتوار اور پیر کے درمیان کوبانی کے نزدیک 17 فضائی حملے کیے ہیں جن میں دولتِ اسلامیہ کے جنگجووں اور اثاثوں کو نشانہ بنایا گیا۔
گزشتہ جمعے کو 'پینٹاگون' نے کہا تھا کہ کرد فورسز کوبانی شہر کے 70 فی صد حصے پر قابض ہوچکی ہیں۔
'سیرین آبرویٹری' کے سربراہ رامی عبدالرحمن نے خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کو بتایا ہے کہ کرد فورسز نے دولتِ اسلامیہ کے جنگجووں کو قصبے سے باہر دھکیل دیا ہے جس کےبعد پورا قصبہ کرد فورسز کے کنٹرول میں آگیا ہے۔
رامی عبدالرحمن کے مطابق کرد فورسز قصبے کی مشرقی سرحد کے نزدیک علاقے میں بعض جہادیوں کے تعاقب میں ہیں لیکن قصبے کے اندر لڑائی مکمل طور پر رک چکی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ دولتِ اسلامیہ کے جنگجووں نے پسپا ہوتے وقت قصبے کی گلیوں میں بارودی سرنگیں بچھادی ہیں جس کے باعث کرد رضاکاروں کو انتہائی احتیاط اور سست روی سے پیش قدمی کرنا پڑ رہی ہے۔
کوبانی میں کرد فورسز کے ہمراہ موجود ایک مقامی صحافی نے مغربی ذرائع ابلاغ کو بتایا ہے کہ "شہر کو آزاد کرالیا گیا ہے اور اب شدت پسندوں کے ساتھ نواحی دیہات میں لڑائی ہوگی"۔
اطلاعات ہیں کہ کوبانی کے نواحی دیہات میں اب بھی دولتِ اسلامیہ کے سیکڑوں جنگجو موجود ہیں جو کرد فورسز کی پیش قدمی کی صورت میں لڑائی کی تیاریاں کر رہے ہیں۔
دولتِ اسلامیہ کے جنگجووں نے گزشتہ سال جولائی میں کوبانی کی جانب پیش قدمی کی تھی جہاں انہیں مقامی کرد رضاکاروں کی سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
کوبانی اور اس کے نواحی دیہات میں شدید لڑائی کے باعث قصبے اور مضافات کی تمام آبادی کئی ماہ پہلے ہی ترکی اور دیگر محفوظ مقامات کی جانب نقل مکانی کرگئی تھی اور شہر میں صرف کرد جنگجو ہی باقی رہ گئے تھے۔
شہر کے دفاع پر مامور کرد رضاکاروں کی دولتِ اسلامیہ کے خلاف کامیاب مزاحمت کے باعث کوبانی کو بین الاقوامی میڈیا میں ایک علامتی حیثیت حاصل ہوگئی تھی اور شہر کی صورتِ حال کو گزشتہ کئی مہینوں سے ذرائع ابلاغ میں خصوصی کوریج دی جاتی رہی ہے۔
کوبانی پر قبضے کی صورت میں ترکی اور شام کے درمیان اہم سرحدی گزرگاہ بھی دولتِ اسلامیہ کے قبضے میں جانے کا اندیشہ تھا جس سے شدت پسندوں کو نقل و حرکت میں آسانی اور ان کی اسٹریٹجک اہمیت میں اضافہ ہوسکتا تھا۔