آئندہ صدارتی انتخاب کے لیے ریپبلکنز کی تیاریاں

جیب بش

ایک چیز جس پر بہت سے ریپبلیکن متفق ہیں یہ ہے کہ پارٹی کی مقبولیت کو وسعت دینے کی ضرورت ہے۔ روایتی طور پر ریپبلیکن پارٹی کی حمایت بڑی عمر کے سفید فام ووٹروں میں زیادہ رہی ہے ۔
امریکہ میں گذشتہ نومبر کے صدارتی انتخاب میں شکست کے بعد ریپبلیکن پارٹی کے زخم ابھی بھرے نہیں ہیں۔ اس انتخاب میں براک اوباما دوسری مدت کے لیے صدر منتخب ہو گئے اور سینیٹ اور ایوانِ نمائندگان دونوں میں ریپبلیکنز کو کئی نشستوں کا نقصان ہوا۔ لیکن اب بعض ریپبلیکنز نے ابھی سے 2016ء کے صدارتی انتخاب کی تیاری شروع کر دی ہے۔

بعض ریپبلیکنز کے لیے یہ امکان بڑا ولولہ انگیز ہے کہ بش گھرانے کا ایک تیسرا فرد 2016ء میں وائٹ ہاؤس کے مقابلے کی تیاری کر رہا ہے۔

ریاست فلوریڈا کے سابق گورنر جیب بش نے اپنے بھائی جارج ڈبلیو بش اور اپنے والد جارج ایچ ڈبلیو بش ، دونوں کا عہدِ صدارت دیکھا ہے ۔ ریپبلیکنز نے 2008ء اور 2012ء کے صدارتی انتخاب میں جیب بش کو شرکت کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کی تھی لیکن انھوں نے دونوں بار ان کی بات نہیں مانی۔

اب جیب بش کہتے ہیں کہ وہ 2016ء میں صدارت کے لیے کھڑے ہونے کے بارے میں سوچ رہے ہیں، لیکن ابھی فیصلہ کرنے میں انہیں وقت لگے گا۔

انھوں نے ایک نئی کتاب شائع کی ہے جس میں امیگریشن کے بارے میں جامع اصلاحات پر زور دیا ہے۔ انھوں نے این بی سی ٹیلیویژن کے ٹوڈے شو میں کہا کہ ’’امیگریشن ایسا مسئلہ ہے جس سے کئی دوسرے معاملات منسلک ہیں۔ ایشیائی امریکیوں اور ہسپینک امریکیوں کے لیے یہ اہم ترین مسئلہ نہیں ہے لیکن اس کا تعلق دوسری چیزوں سے ضرور ہے۔‘‘

اگر جیب بش نے 2016ء کا انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا تو بھی امکان یہی ہے کہ وہ ریپبلیکن صدارتی امیدواروں کے خاصے بڑے ہجوم میں شامل ہو جائیں گے ۔ ایک نسبتاً نئی نسل جس میں فلوریڈا کے سینیٹر مارکو روبیو اور وسکانسن کے کانگریس مین پال رائن سرِ فہرست ہیں، وائٹ ہاؤس کی دوڑ میں شامل ہو سکتی ہے۔ ان کے علاوہ ریپبلیکن گورنرز جیسے ریاست نیو جرسی کے کرس کرسٹی اور لوزی آنا کے بوبی جنڈال، اور ٹی پارٹی کے حمایت یافتہ ریاست کنٹکی کے سینیٹر رانڈ پال بلکہ ٹیکسس کے سینیٹر ٹیڈ کروز بھی جو اسی سال سینیٹ میں آئے ہیں، صدارت کے امیدوار ہو سکتے ہیں۔

ایک چیز جس پر بہت سے ریپبلیکن متفق ہیں یہ ہے کہ پارٹی کی مقبولیت کو وسعت دینے کی ضرورت ہے۔ روایتی طور پر ریپبلیکن پارٹی کی حمایت بڑی عمر کے سفید فام ووٹروں میں زیادہ رہی ہے ۔

گزشتہ سال صدارتی انتخاب ہارنے والے ریپبلیکن امید وار کو بھی یہ احساس ہے کہ پارٹی کی مقبولیت کو ووٹروں کے مختلف گروپوں میں پھیلانا چاہیئے ۔ اپنے شکست کے بعد ، گذشتہ اتوار کو فاکس نیوز ٹیلیویژن پر پہلی بار انٹر ویو دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’’یہ بات واضح ہے کہ ہمیں اقلیتی ووٹروں کے ووٹ حاصل کرنے کا کام بہتر طریقے سے انجام دینا چاہیئے ۔ ہمیں اپنا پیغام زیادہ موئثر انداز سے ان تک پہنچانا چاہیئے اور انہیں یہ سمجھنے میں مدد دینی چاہیئے کہ آخر ہماری پارٹی کے پاس ان کی زندگی بہتر بنانے کے لیے جو تجاویز ہیں وہ بہتر کیوں ہیں۔‘‘

ریپبلیکن تجزیہ کار اسکاٹ فاکنر کہتے ہیں کہ اس وقت قومی سطح کا کوئی لیڈر موجود نہیں ہے ۔ اس طرح نسبتاً کم معروف ریپبلیکنز کو یہ موقع ملا ہے کہ وہ آگے آکر قومی سطح پر اپنا موقف پیش کریں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’اس وقت یہ قومی سطح کی ایسی پارٹی ہے جس میں آپس کے اختلافات بہت زیادہ ہیں ۔ کوئی ایک نمایاں شخصیت نہ ہونے کی وجہ سے، اس وقت بہت سی آوازیں سامنے آ رہی ہیں کیوں کہ ریپبلیکن پارٹی کی کوئی واضح سمت نظر نہیں آتی۔‘‘

کٹر قدامت پسندوں کا خیال ہے کہ مٹ رومنی کی ہار کی وجہ یہ تھی کہ انھوں نے قدامت پسندی کے اصولوں پر، اس امید میں سمجھوتہ کر لیا کہ اس طرح وہ اعتدال پسند ووٹروں کی حمایت حاصل کر لیں گے ۔

ریپبلیکن پارٹی کے روایتی عناصر اور ٹی پارٹی کی تحریک سے تعلق رکھنے والے زیادہ قدامت پسند عناصر کے درمیان بھی کشیدگی موجود ہے۔ یہ چیز ریپبلیکن سیاسی حکمت عملی بنانے والوں کے لیے پریشان کن ہے ۔

امریکن اینٹرپرائز انسٹی ٹیوٹ کے تجزیہ کار نارم اورنسٹین نے وائس آف امریکہ کے انگریزی پروگرام میں کہا کہ ’’وہ سخت خوفزدہ ہیں کہ ریپبلیکنز کے درمیان اختلافات بہت گہرے ہو سکتے ہیں جس سے 2016ء میں ان کے صدارتی انتخاب میں جیتنے کے امکانات پر تباہ کن اثرات پڑ سکتے ہیں۔‘‘

قیونیپیاک یونیورسٹی کے پولسٹر پیٹر براؤن کہتے ہیں کہ حال ہی میں جو سروے ہوئے ہیں ان کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ ریپبلیکنز کو ووٹروں میں اپنا قومی تاثر بہتر بنانے کے لیے محنت کرنی ہو گی۔ ان کے مطابق ’’ستر فیصد ووٹرز کانگریس میں ریپبلیکنز کی کارکردگی سے خوش نہیں ہیں۔ ساٹھ فیصد ووٹرز کی نظر میں ڈیموکریٹس جو کچھ کر رہے ہیں وہ ٹھیک نہیں ہے۔ دونوں پارٹیوں کا ریکارڈ قابلِ رشک نہیں ہے، لیکن ڈیموکریٹس کی پوزیشن کچھ بہتر ہے۔

ماہرین کہتے ہیں کہ جو ریپبلیکنز 2016ء کے صدارتی انتخاب میں حصہ لینے پر غور کر رہے ہیں، وہ اپنے فیصلے کا اعلان امریکی کانگریس کے 2014ء کے وسط مدتی انتخابات کے بعد ہی کریں گے۔