ایران کی سیاست میں قاسم سلیمانی کا نمایاں کردار

فائل

بقول قاسم سلیمانی، الاسد کے ساتھ ملاقاتوں میں ظریف کی عدم موجودگی کا اصل سبب ’’نوکر شاہی‘‘ کی غفلت تھی، جس میں کسی ارادے کا کوئی عمل دخل نہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ ’’ظریف کو خامنہ ای کی حمایت حاصل ہے، اور وہی خارجہ پالیسی کے سربراہ ہیں‘‘

ایسا لگتا ہے کہ ایران میں پاسداران انقلاب، بالخصوص سپاہ قدس، پھر سے اپنی سبقت منوانے کی تگ و دو میں سرگرداں ہے۔ اس ضمن میں تجزیہ کار سپاہ قدس کے سربراہ، قاسم سلیمانی کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔

قاسم سلیمانی کئی برسوں تک منظر سے غائب تھے۔

سیاست پر گہری نظر رکھنے والے، ایران میں سامنے آنے والی بحرانی صورت حال کی جانب اشارہ کرتے ہیں جہاں گزشتہ ہفتے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے استعفیٰ دیا جسے صدر حسن روحانی نے فوری طور پر مسترد کر دیا تھا۔

ادھر تجزیہ کار اس جانب بھی اشارہ کرتے ہیں کہ شام کے صدر بشار الاسد سے ملاقات کے دوران جواد ظریف نظر نہیں آئے، جب کہ قاسم سلیمانی پیش پیش رہے، جس سے کشیدگی کے آثار نمایاں لگتے ہیں۔

سنہ 1998میں خامنہ ای نے سلیمانی کو سپاہ قدس کا سربراہ لگایا۔ پھر کئی سالوں تک وہ پس پردہ چلے گئے۔ اسی دوران سلیمانی نے ایران کے ساتھ حزب اللہ اور لبنان، اسد حکومت اور عراق میں شیعہ ملیشیا کے گروپس کے ساتھ تعلقات مضبوط بنائے۔

’ رائٹرز‘ نے صورت حال سے مانوس حلقوں کے حوالے سےبتایا ہے کہ حالیہ دنوں کے دوران ہم نے یہ بھی دیکھا کہ ظریف کے استعفے کے بعد سلیمانی نے عام روایت سے ہٹ کر ایک بیان جاری کیا۔

بقول قاسم سلیمانی، الاسد کے ساتھ ملاقاتوں میں ظریف کی عدم موجودگی کا اصل سبب ’’نوکر شاہی‘‘ کی غفلت تھی، جس میں کسی ارادے کا کوئی عمل دخل نہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ ’’ظریف کو خامنہ ای کی حمایت حاصل ہے، اور وہی خارجہ پالیسی کے سربراہ ہیں‘‘۔

ادھر، سرکاری سرپرستی میں کام کرنے والے خبر رساں ادارے، ارنا نے خبر دی ہے کہ اسد سے ملاقات کے بارے میں آغاز سے ہی وزارت خارجہ کو باخبر نہیں رکھا گیا۔ وزارت خارجہ کے ترجمان، بہرام قاسمی کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ظریف کے مستعفی ہونے کا مقصد یہ تھا کہ ایران کے سفارتی نظام کو اصل مقام پر بحال کیا جائے۔

بتایا جاتا ہے کہ جب بھی ایران کی سیاست میں بحرانی کیفیت سامنے آئی ہے، اس میں پاسداران کا کردار نمایاں رہا ہے۔ اُنہی کے لیے کہا جاتا ہے کہ وہ اسلامی جمہوریہ کی سیاست میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ سال 1979ء کے ایرانی انقلاب سے 40 برس بعد بھی مغرب سے مفاہمت کے قائل سرکاری اہلکاروں کو منظر سے غائب کردیا جاتا ہے۔

نرم گفتار سلیمانی 11 مارچ، 1957ء کو ایران کے جنوب مشرق میں واقع قصبے،ربور میں پیدا ہوئے۔ اُن کے خاندان کا تعلق زراعت سے تھا۔ وہ غربت میں پلے بڑھے۔

جب وہ ابھی 13 برس کے تھے تو وہ کرمان کی قصبے کی جانب منتقل ہوئے، اور تعمیراتی شعبے میں نوکری کی۔

سنہ 1978 میں جب شاہ کو ہٹانے کے لیے انقلاب کا آغاز ہوا، سلیمانی کرمان کے محکمہٴ آب میں ملاز م تھے، جہاں اُنھوں نے شہنشاہ کے خلاف مظاہروں میں شرکت کی۔

سال 1980میں جب عراق سے جنگ چھڑی، اُنھوں نے رضاکارانہ بنیادوں پر پاسداران انقلاب کے لیے کام شروع کیا۔ انھیں افغانستان کی سرحد پر منشیات کے اسمگلروں سے نمٹنے کا کام سونپا گیا، جسے اُنھوں نے نمایاں طور پر سر انجام دیا۔

سنہ 2007 میں عراق میں سنی اور شیعہ ملیشیاؤں کے مابین خانہ جنگی نے شدت اختیار کی۔ امریکی فوج نے سپاہ قدس پر الزام لگایا کہ وہ شیعہ ملیشیاؤں کو دیسی ساختہ دھماکہ خیز مواد فراہم کرتا ہے، جس کے نتیجے میں متعدد امریکی فوجی ہلاک ہوئے۔

سال 2017میں شمالی کردستان میں ریفرنڈم اور اعلان آزادی کے بعد سلیمانی نے کرد رہنماؤں کو انتباہ جاری کیا، جس کے نتیجے میں متنازع علاقوں سے عسکریت پسندوں کا انخلا شروع ہوا اور مرکزی حکومت کی افواج نے پھر سے اپنا کنٹرول مستحکم کیا۔

سلیمانی شام میں خاصے اثر و رسوخ کے مالک ہیں، جب کہ روس کے ساتھ اُن کے قریبی مراسم ہیں، جو اسد کا اتحادی ہے۔ جہاں تک سعودی عرب اور اسرائیل کا تعلق ہے، وہ اُنھیں اپنا سخت مخالف گردانتے ہیں۔ ادھر، سپاہ قدس کی لبنان کی حزب اللہ ااور دیگر مسلح گروہوں کے ساتھ قریبی مراسم پر، امریکہ محکمہٴ خزانہ نے سلیمانی کو پابندیوں کا بارہا ہدف بنایا ہے۔