پاکستان میں سنیما کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو دلچسپ نشیب و فراز دکھائی دیتے ہیں۔ کبھی ایسا عروج کہ کھڑکی توڑ رش اور سنیما گھروں کے باہر فلم دیکھنے کے شوقین لوگوں میں لڑائی جھگڑا ۔۔۔ تو کبھی ایسی ویرانی کہ سنیما گھر شاپنگ پلازہ میں بدلتے نظر آئیں۔
بدلتی ہوئی فلمی تاریخ کے موجودہ دور میں ختم ہوتے سال 2018 کے تفصیلی جائزے پر نظر ڈالیں تو واضح ہوتا ہے کہ اس سال پاکستانی سنیما نے کامیابی کا سفر طے ضرور کیا ہے۔ لیکن، سست روی کے ساتھ۔
رواں سال ریلیز ہونے والی فلمیں
رواں سال کم و بیش دو درجن فلمیں ریلیز ہوئیں جن میں ’سات دن محبت ان‘، ’طیفا ان ٹربل‘ ،’پرچی‘، ’مان جائونا‘، ’پری‘، ’آزاد‘، ’ٹک ٹاک‘ ، ’کیک‘، ’موٹرسائیکل گرل‘، ’آزادی‘ ،’نہ بینڈ نہ باراتی‘، ’وجود‘، ’شور شرابہ‘، ’جیک پاٹ‘، ’جوانی پھر نہیں آنی2‘، ’لوڈ ویڈنگ‘، ’پرواز ہے جنون‘ اور بچوں کے لئے خصوصی طور پر بنائی گئی فلم ’ڈونکی کنگ‘ شامل ہیں، جبکہ ایک اور اینی میٹیڈ فلم ’تین بہادر‘ کی بھی ریلیز جلد متوقع ہے۔
گو کہ ان فلموں میں سے زیادہ تر فلاپ رہیں لیکن کچھ فلموں مثلاً ’سات دن محبت ان‘، ’طیفا ان ٹربل‘، ’دی ڈونکی کنگ‘ نے کرڑوں کا کامیاب بزنس کیا جبکہ پچھلے سال بھی کچھ فلموں نے اچھا خاصا بزنس کیا تھا؛ جن میں ’پنجاب نہیں جاؤں گی‘، ’نامعلوم افراد 2‘ اور رانگ نمبر ٹو ‘ شامل ہیں۔
ان فلموں کی کامیابی اس جانب اشارہ ہے کہ مقامی فلم انڈسٹری نے کامیابی و ترقی کا سفر طے تو کیا ہے۔ لیکن، اس کی رفتار خاطر خواہ نہیں۔ لہذا، فلم انڈسٹری کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے لئے ابھی مزید وقت درکار ہوگا۔
سنہرا ماضی
پاکستان میں حالیہ برسوں میں فلم انڈسٹری کا ’نیا جنم‘ ہوا ہے اس لئے اس دور کو فلموں کا احیا بھی کہا جاتا ہے ورنہ سن 60 اور 70 کا عشرہ سنہری دور کہلاتا ہے۔ اس دور میں لاہور میں قائم فلم انڈسٹری سیکڑوں مقبول اور سپرہٹ فلمیں پروڈیوس کرتی تھی۔
اسی دور کے حوالے سے ایک غیر ملکی انگریزی جریدے ’دی اکنامسٹ‘ نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا ہے: چاکلیٹی ہیرو وحید مراد سپر اسٹار بن کر ابھرے تو پاکستانی سینما کی خاتون اول کہلائی جانے والی صبیحہ خانم نے بھی اپنی جذباتی اداکاری سے لوگوں کے دلوں میں گھر کیا۔ وحید مراد کی 1966میں ریلیز ہونے والی فلم ’ارمان‘ نے ساؤتھ ایشیا کے آڈینس کو پہلی بار ’پوپ سونگ‘ دیا اور پاکستانی میوزک میں ایک نئی طرح کا میوزک متعارف کرایا۔
لیکن، پھر مختلف وجوہات سنیما انڈسٹری کے زوال کا سبب بنتی چلی گئیں اور سن 90 کے عشرے تک صورتحال بہت خراب ہوگئی۔ پاکستانی فلموں کی سالانہ پروڈکشن کم ہوتے ہوتے سالانہ 20 فلموں تک محدود ہوگئی۔
اس تعداد کو دیکھیں تو کم و بیش یہی صورتحال اس سال بھی رہی۔ لیکن پہلے اور اب کے ماحول میں بہت بہتری آئی ہے۔ 90 کے عشرے میں سنیما ہالز ٹوٹ رہے تھے اور اب نئے اور جدید سنیماہالز اور ٹیکنالوجی اپنائی جا رہی ہے جس سے توقع ہے کہ اگلے کچھ سالوں میں صورتحال مزید بہتر ہوگی۔
اس وقت نئے پروڈیوسرز اور ڈائریکٹرز نے پھر سے ہمت یکجا کرکے تباہ حال فلم انڈسٹری کا رخ کیا ہے تو حالات میں بھی تبدیلی آنے لگی۔ پروڈکشن لاہور سے کراچی منتقل ہوگئی ہے۔ بالی وڈ فلمیں بھی پاکستانی اسکرینز تک پہنچنے لگی ہیں جس کے سبب مقابلے کی فضا پیدا ہوئی ہے، جبکہ مقامی سطح پر تیار ہونے والی فلمیں بھی شائقین کو واپس سنیما گھروں میں لانے میں کامیاب رہی ہیں۔
پاکستانی سینما کی بحالی کا سہرا جس پاکستانی فلم کو دیا جاتا ہے وہ شعیب منصور کی 2007 میں ریلیز ہونے والی ’خدا کے لئے‘ ہے۔ شعیب منصور نےاس فلم کے بعد مزید دو فلمیں ’بول‘ اور 2017 میں ’ورنہ‘ بنائیں۔ ان دونوں فلموں میں خواتین کے مسائل کو اجاگر کیا گیا تھا۔
قابل غور ہے کہ عاصم عباسی کی مارچ میں سینما گھروں کی زینت بننے والی فلم ’کیک‘ شعیب منصور کی فلموں کی طرح روایتی فلموں سے ہٹ کرثابت ہوئی۔بغیر گانوں اور ڈانس کے بننے والی اس فلم میں رشتوں اور تعلقات کو عام زندگی کی طرح دکھایا گیا تھا۔
بے جا سنسر پالیسی سے فلم بین ناراض
اتنا کچھ بدلنے کے باوجود پاکستان کا مرکزی سنسر بورڈ بدستور بہت بااختیار ہے۔ سختی کی بدولت ’ورنہ‘ اور ’مالک‘ جیسی فلموں کو قانونی جنگ لڑنا پڑی جس سے فلم کا بجٹ بڑھ گیا اور بہت سا وقت بھی ضائع ہوگیا اور نتیجہ یہ نکلا کہ یہ فلمیں یا تو تاخیر کا سبب ہوئیں یا پھر سنسر کی بدولت ان کی کہانیوں میں جھول آگیا۔
مرکزی فلم سنسر بورڈ کے چیئرمین مبشر حسن نے ’وائس آف امریکہ‘ کو اس تاخیر کی وجہ یہ بیان کی کہ ۔۔’’ادارے کے فل بورڈ نے قابل اعتراض مواد حذف کرنے کے بعد ہی فلم کو نمائش کی اجازت دی‘‘۔
اس سوال پر کہ فلم میں کون سا مواد قابل اعتراض تھا، مبشر حسن نے بتایا کہ قابل اعتراض مواد یہ تھا کہ فلم کے کچھ حصے میں ریاست کے اداروں اور اہلکاروں کو حقائق سے ہٹ کر منفی انداز میں دکھایا گیا تھا جس سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی قربانیاں زائل کرنے کا ’تاثر‘ ملتا تھا۔
اس کے جواب میں فلمی حلقوں سے جڑے افراد کا کہنا ہے کہ ’محض ’تاثر‘ جیسی بے جا سنسر شپ کی بدولت فلمیں کہیں ایک مرتبہ پھر شہرت اور ناظرین دونوں کی پسند سے دور نہ چلی جائیں۔ اگر واقعی ایسا ہوا تو ایک عام ناظر کے ان خیالات کو تقویت ملے گی کہ ’’کچھ بھی کر لیا جائے، پاکستانی سنیما، پاکستانی فلمیں اسی طرح کبھی نہ ختم ہونے والی اپنی بقا کی جنگ لڑتی رہیں گی۔ اس لئے کون جائے سنیما۔۔کس کے پاس اتنا وقت ہے۔‘‘
لیکن تمام تر رکاوٹوں، خدشات اور مسائل کے باوجود یہ نہیں کہا جا سکتا کہ پاکستانی سنیما کا درست سمت میں بہتری کی طرف سفر جاری نہیں ہے ۔۔۔ بہتری آ رہی ہے بس اس کی رفتار میں تیزی لانے کی ضرورت ہے۔