منگل کو باغیوں نے شام کے دارالحکومت دمشق میں راکٹوں سے حملہ کیا۔ روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے اس حملے کو دہشت گردی قرار دیا ہے جس کا مقصد ان لوگوں خوفزدہ کرنا ہے جو داعش کے خلاف جنگ میں مصروف ہیں۔
جس وقت سفارتخانے پر دو راکٹ داغے گئے اس وقت سینکڑوں افراد سفارتخانے کے باہر دو ہفتوں سے جاری شام میں روسی کارروائیوں کی حمایت کے لیے جمع تھے۔ ابھی تک کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔
دریں اثنا شام میں اقوام متحدہ کے سفیر سٹافن ڈی مستورا منگل کو روس سے مذاکرات کر رہے ہیں۔ اس کا مقصد روس اور امریکہ کے درمیان مفاہمت پیدا کرنا ہے اور شام میں جنگ کا سیاسی حل تلاش کرنا ہے۔
بعد ازاں، ڈی مستورا مذاکرات کے لیے واشنگٹن جائیں گے۔
انہوں نے پیر کو جنیوا میں ایک بریفنگ میں کہا تھا کہ شام میں دہشت گردوں سے جنگ اہم ہے مگر ایک متوازی سیاسی عمل اور اس مسئلے کے حل کے لیے علاقائی طاقتوں کو شامل کرنا ضروری ہے۔
’’انہوں نے کہا کہ شام میں اکثر پناہ گزین داعش کے ملک کے ایک تہائی حصے پر قبضے سے پہلے ہی ملک چھوڑ چکے تھے۔ دراصل وہ حکومت اور حزب مخالف کے درمیان جنگ کے باعث ملک چھوڑ کر گئے تھے۔‘‘
ڈی مستورا نے کہا کہ روس کی فوجی کارروائیوں نے شام کی صورتحال میں ’’نئے محرکات‘‘ کا اضافہ کیا ہے۔
پیر کو روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا تھا کہ شام میں جنگ پر واشنگٹن کے ساتھ بات چیت میں پیش رفت ہوئی ہے۔
پیر کو شامی فوج نے روسی فضائی کارروائیوں کی مدد سے پیش رفت کی جبکہ امریکہ نے اتوار کو شمالی شام میں باغیوں کے لیے فضا سے 50 ٹن اسلحے کی امداد نیچے گرائی۔
شام میں چار سال سے خانہ جنگی جاری ہے اور روس کی مداخلت کے بعد صورتحال مزید پیچیدہ ہو گئی ہے۔ روس صدر بشار الاسد کی حمایت کر رہا ہے جبکہ امریکہ حکومت مخالف باغیوں کو امداد فراہم کر رہا ہے۔