نور زاہد
ایسے میں جب میانمار کی ریاستِ رخائین میں تشدد کی کارروائیوں سے بچنے کے لیے لاکھوں روہنگیا مسلمان سرحد پار کرکے ہمسایہ بنگلہ دیش پہنچے ہیں، تجزیہ کاروں نے متنبہ کیا ہے کہ صورتِ حال خطرے کی گھنٹی ہے، چونکہ اسے حل نہ کیے جانے کے نتیجے میں غیرملکی شدت پسندوں کو لڑاکے بھرتی کرنے کا موقع مل جائے گا۔
پاکستان میں جنوبی ایشیا کے نامور تجزیہ کار، حسن عسکری نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ''علاقے میں چند شدت پسند گروہ سرگرم ہیں، جو بنگلہ دیش میں بھی موجود ہیں۔ اب تک، اس بات کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملا آیا میانمار میں القاعدہ یا داعش کے عناصر موجود ہیں، جب کہ ہماری نظروں سے ایک بیان گزرا ہے جس میں روہنگیا کے لیے دولت اسلامیہ نے ہمدردی کا اظہار کیا ہے''۔
عسکری نے کہا کہ ''لیکن، اگر یہ کشیدہ صورتِ حال جاری رہتی ہے یا بدتر صورت اختیار کرتی ہے، تو اس بات کا قوی امکان ہو سکتا ہے کہ شدت پسند گروہ اور دہشت گرد تحاریک تیزی سے سرگرمِ عمل ہوجائیں اور یوں وہ میانمار کے اندر سر اٹھائیں''۔
مبینہ طور پر شدت پسند بودھوں اور ملک کی سلامتی افواج کے ہاتھوں گھروں کو نذر آتش کیے جانے کے بعد، روہنگیا علاقے سے بھاگ نکلے۔ اقوام متحدہ کے مہاجرین کے ادارے نے جمعے کے روز کہا ہے کہ گذشتہ دو ہفتوں کے دوران اندازاً 270،000روہنگیا افراد ہمسایہ بنگلہ دیش میں آچکے ہیں۔
مہاجرین کے عالمی ادارے کی ایشیا اور پیسیفک کی ترجمان، دنیا اسلم خان نے اس ہفتے جنیوا میں ایک اخباری بریفنگ کے دوران بتایا کہ ''ادارے کو میانمار میں جاری تنازع پر شدید تشویش لاحق ہے، خاص طور پر اِن اطلاعات پر کہ محفوظ مقامات کی تلاش میں لوگ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں''۔
بقول اُن کے، ''اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ تشدد کی کارروائیوں میں حالیہ اضافے کی جڑوں تک پہنچا جائے، تاکہ لوگ بھاگ نکلنے پر مجبور نہ ہوں اور بالآخر بحفاظت اور عزت کے ساتھ اپنے گھروں کی جانب لوٹ آئیں''۔
تشدد کے تازہ ترین واقعات کا آغاز 25 اگست کو اُس وقت ہوا جب روہنگیا سے تعلق رکھنےوالے باغیوں نے پولیس چوکیوں اور فوج کے ایک اڈے پر دھاوا بول دیا، جس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اس کا مقصد اپنی اقلیتی نسل کو مظالم سے بچانا تھا۔
میانمار کی ریاستی مشیر اور ملک کے بے تاج رہنما، آن سان سوچی؛ اور بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی، جو میانمار کے دور روزہ دورے پر تھے، دونوں نے ہی روہنگیا تشدد کا الزام انتہا پسند گروہوں پر عائد کیا ہے۔
سوچی زیر بار رہی ہیں کہ وہ تشدد کے واقعات پر لب کشائی کیوں نہیں کر رہی ہیں۔ حال ہی میں اُنھوں نے اس مسئلے کو ''غلط بیانی کا ایک بڑا شاخسانہ'' قرار دیا، جس بیان پر دنیا بھر میں سخت نکتہ چینی کی گئی۔