میانمار میں روہنگیا نسل کے مسلمانوں کے قتل اور اُن کی نقل مکانی سے متعلق سامنے آنے والی خبروں کے بعد پاکستان میں سیاسی و مذہبی جماعتیں اپنے اپنے طور پر اس کی مذمت کرتی رہی ہیں۔
تاہم، جمعے کو اسلام آباد میں جماعت اسلامی اور بعض دیگر مذہبی و سیاسی جماعتوں کے کارکنوں نے ایک بڑی ریلی نکالی۔
ریلی میں شامل سینکڑوں افراد نے وفاقی دارالحکومت کے ریڈ زون میں واقعہ برما کے سفارت خانے کی جانب مارچ کیا اور راستے میں لگائی جانے والی خار دار تاروں کو ہٹاتے ہوئے ’ریڈ زون‘ کے قریب پہنچ گئے۔ لیکن، اُنھیں پولیس نے روک دیا۔
اس احتجاج سے قبل جمعرات کی شب ہی اسلام آباد کی انتظامیہ نے ریڈ زون کی جانب جانے والے راستوں کو کنٹینر لگا کر بند کر دیا تھا، جب کہ اضافی پولیس دستے میں تعینات کیے گئے تھے۔
مظاہرے میں شریک افراد کا کہنا تھا کہ حکومت میانمار کے سفیر کو ملک سے نکلنے کا حکم دے۔
ایک روز قبل جمعرات کی شب پاکستان کی وفاقی کابینہ نے بھی میانمار کی جمہوریت نواز رہنما اور امن کی نوبیل انعام یافتہ آنگ سان سوچی سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ مسلمانوں کے خلاف ہونے والی زیادتی کو رکوانے کے لیے فوری طور پر اقدام کریں۔
اس سے قبل، پاکستان کی وزارت خارجہ نے بھی ایک بیان میں میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے قتل اور اس برادری کے افراد کی نقل مکانی سے متعلق سامنے آنے والی اطلاعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے میانمار کی حکومت سے اس معاملے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔
پاکستان کے وزیر برائے انسانی حقوق، ممتاز احمد تارڑ نے ایک بیان مسلمان ممالک کی تنظیم ’او آئی سی‘ سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ بغیر تاخیر کے اس معاملے میں مداخلت کرتے ہوئے روہنگیا مسلمانوں کے تحفظ کے لیے اقدامات کرے۔
میانمار میں آباد لگ بھگ 10 لاکھ روہنگیا مسلمان ایک اقلیت ہیں جنہیں ایک عرصے سے نہ صرف ملک کی اکثریتی بودھ آبادی اور سکیورٹی فورسز کی طرف سے امتیازی سلوک اور تشدد کا سامنا ہے بلکہ حکومت بھی انھیں اپنا شہری تسلیم نہ کرتے ہوئے ان پر توجہ نہیں دیتی۔
لیکن، میانمار کی سیاسی قیادت کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے سامنے آنے والی خبروں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے۔