روس کے صدر ولادیمر پوٹن نے کہا ہے کہ امریکہ کی طرف سے ان کے ملک پر عائد کی جانے والی نئی تعزیرات سے دو طرفہ تعلقات میں تعطل کے علاوہ یہ روس کے ساتھ ساتھ امریکی کاروبار کے لیے بھی نقصان دہ ہوں گی۔
مسٹر پوٹن نے یہ بیان دورہ برازیل کے دوران دیا۔ اس بیان سے چند گھنٹے قبل ہی امریکہ کے صدر براک اوباما نے ماسکو کی طرف سے یوکرین میں روس نواز باغیوں کی حمایت کرنے پر روس کے بینکوں اور توانائی کی کمپنیوں کے لیے نئی پابندیوں کا اعلان کیا تھا۔
روس کے صدر نے کہا کہ " (پابندیوں) کے اثرات نافذ کرنے والوں پر بھی ہوں گے اور بلاشبہ یہ روس امریکہ تعلقات کو بند گلی میں دھکیل دیں گی، اور بہت سنگین نقصان کا باعث ہوں گی۔ مجھے یقین ہے کہ یہ امریکی حکومت کے طویل المدت اسٹریٹیجک مفادات اور امریکی عوام کے لیے بھی مضر ہوں گی۔"
ادھر جمعرات کو روس کی وزارت خارجہ نے کہا کہ ان کا ملک امریکہ کی طرف سے "بلیک میلنگ" کو برداشت نہیں کرے گا اور وہ اس کے ردعمل میں اقدامات کرنے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔
صدر اوباما نے بدھ کو وائٹ ہاوس میں گفتگو میں کہا کہ انھوں نے بارہا ماسکو پر زور دیا کہ وہ یوکرین میں بحران کے حل کے لیے کلیدی اقدامات کرے لیکن روس اب تک امریکہ کی سفارشات پر عمل کرنے میں ناکام رہا۔
امریکہ نے یوکرین میں روس کی مبینہ مداخلت کے خلاف بدھ کو کئی روسی اداروں اور شخصیات پر اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا تھا اور یہ تعزیرات ماضی میں عائد کی جانے والی پابندیوں کی نسبت زیادہ وسیع پیمانے پر محیط ہیں۔
امریکی محکمہ خزانہ کی طرف سے جاری بیان کے مطابق جن کمپنیوں پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں ان میں روس کی دوسری بڑی گیس کمپنی، ایک سرکاری بینک اور آٹھ اسلحہ فیکٹریوں کے علاوہ کئی بڑے روسی بینک اور توانائی کے شعبے میں کام کرنے والی کمپنیاں شامل ہیں۔
بیان میں کہا گیا تھا کہ پابندیوں کے نتیجے میں ان کمپنیوں کو ڈالرز کی فراہمی ناممکن بنا دی گئی ہے لیکن ان میں سے بیشتر کمپنیوں کے امریکہ میں موجود اثاثے منجمد نہیں کیے گئے ہیں۔
پابندیوں کا نشانہ بننے والی کمپنیوں کی فہرست میں یوکرین سے علیحدگی اختیار کرنے کے بعد روس کا حصہ بننے والے علاقے کرائمیا کی ایک شپنگ کمپنی بھی شامل ہے۔