روس نے ایران کے اقتصادی اور توانائی کے شعبوں پر نئی امریکی پابندیوں کو’’ناقابل قبول‘‘ قرار دے کر مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ اس سے تہران کے جوہری پروگرام پر بات چیت کی تجدید کے امکانات کو نقصان پہنچے گا۔
منگل کو ماسکو میں وزارت خارجہ کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ایسے اقدامات سے تہران کے ساتھ ’’تعمیری مذاکرات کی کوششیں سنجیدہ پیچیدگیوں‘‘ سے دوچار ہوں گی۔
’’ہم ایک بار پھراس بات کی اہمیت پر زور دیتے ہیں کہ ایسے بیرونی اقدامات کو روس ناقابل قبول اور بین الاقوامی قوانین کے متضاد سمجھتا ہے۔‘‘
روس طویل عرصے سے ایران کے خلاف ایسی پابندیوں کی مخالفت کرتا آیا ہے جو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے لگائی گئی پابندیوں سے ہٹ کر ہوں اور امریکہ کی طرف سے تازہ پابندیوں پر سخت ردعمل ماسکو کے اس دیرینہ موقف کا اعادہ ہے۔
اُدھر ایران کی وزارت خارجہ نے بھی امریکہ، کینیڈا اور برطانیہ کے انفرادی اقدامات کو ’’پراپیگنڈا اور اعصابی جنگ‘‘ قرار دے کر اُن کو ہدف تنقید بنایا ہے۔
وزارت خارجہ کے ترجمان رامین مہمان پرست کا کہنا تھا کہ یہ پابندیاں بے سود ثابت ہوں گی کیوں کہ ایران برطانیہ اور کینیڈا سے محدود پیمانے پر تجارت کر رہا ہے۔
امریکہ نے پیر کے روز ایران کو ’’منی لانڈرنگ کے خدشات کے حوالے سے بڑا خطرہ‘‘ قرار دیا تھا جو بظاہر غیرامریکی بینکوں کو ایران کے ساتھ لین دین سے باز رکھنے کی طرف ایک قدم ہے۔
مزید برآں واشنگٹن نے 11 ایسی کمپنیوں کو بھی بلیک لسٹ کر دیا ہے جن پہ ایران کے جوہری پروگرام میں معاونت کرنے کا شبہ ہے اور ان کمپنیوں تک بھی نئی پابندیوں کا دائرہ کار بڑھا دیا ہے جو ایرانی تیل و پیٹروکیمیکل کی صنعت میں معاونت کر رہی ہیں۔